لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَن تَأْكُلُوا مِن بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخْوَالِكُمْ أَوْ بُيُوتِ خَالَاتِكُمْ أَوْ مَا مَلَكْتُم مَّفَاتِحَهُ أَوْ صَدِيقِكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَأْكُلُوا جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًا ۚ فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
اگر ایک آدمی اندھاہو، یالنگڑ ہوا یابیمار ہو تو اس کے لیے کوئی حرج نہیں، اور خود تمہارے لیے بھی کوئی حرج نہیں کہ اپنے گھر سے کھانا کھاؤ یا اسیے گھروں سے کھاؤ جو تمہارے باپ ماں، بھائی، بہن چچا، پھوپھی، ماموں، خالہ کے گھر ہوں، یا ان لوگوں کے جن کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہوئیں یا دوستوں کے گھر ہوں اور اس میں بھی کوئی گناہ کی بات نہیں کہ تم سب مل کر کھانا کھاؤ یا الگ الگ (٤٥)۔ پھر جب ایسا ہو کہ تم کسی گھر میں داخل ہوتوچاہیے کہ اپنے لوگوں پر سلام بھیجو ایک دعا جو اللہ کی طرف سے ٹھہرا دی گئی، مبارک اور پاکیزہ۔ اس طرح اللہ اپنے احکام کھول کھول کر بیان کردیتا ہے تاکہ تم سمجھو بوجھو۔
(61۔62) اس لئے تم لوگ اس کی مرضی کے برخلاف باتیں کرنے اور دل میں اس کے مخالف خیالات لانے سے پرہیز کیا کرو دیکھو جس طرح یہ اخلاقی احکام تم کو سکھائے جاتے ہیں اسی طرح یہ بھی تم کو بتلایا جاتا ہے کہ کسی کے گھر پر جا کر کوئی چیز رکھی رکھائی بے اجازت نہ اٹھا لیا کرو بلکہ جب تک صاف اجازت نہ ہو مت اٹھایا کرو مگر چند ایک صورتیں ایسی ہیں کہ وہاں اجازت کی ضرورت نہیں ہے وہ سنو ! نہ کسی اندھے کو گناہ ہے نہ کسی لنگڑے کو نہ کسی مریض کو نہ خود تم تندرستوں کو اس میں گناہ ہے کہ تم اپنے گھروں سے کھائو یا اپنے باپ دادا کے گھر سے یا اپنی مائوں کے گھر سے کھائو یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچائوں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی ماسیوں کے گھروں سے کھائو یا جن کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیں یعنی تم ان کے مکانات کے منتظم یا مہتمم ہو ان کے گھروں سے کھائو یا اپنے مخلص دوستوں کے گھروں سے کھاؤ غرض جہاں سے تم چاہو اجازت سے کھائو کوئی حرج نہیں نہ کوئی گناہ ہے کیونکہ اسلام کی یہ تعلیم نہیں کہ ہندو کی طرح جس محلہ یا گائوں میں لڑکی بیاہ دی ہے اس محلہ اور گائوں کے کنوئیں کا پانی بھی مت پئیو جو ایک قسم کا مالیخولیا ہے نہیں چونکہ ایک دوسرے کے گھر میں کھانے سے محبت اور الفت بڑھتی ہے اس لئے تم کو اجازت دی گئی ہے کہ اگر یہ رشتہ دار خود کھلائیں تو بھی تم کو کھانے میں حرج نہیں یا تم خود ان کے گھروں سے بغیر ان کی اطلاع کے کھالو تو بھی حرج نہیں بشرطیکہ یہ تم کو معلوم ہو کہ وہ رنجیدہ نہ ہوں گے اور تمہیں اس میں بھی گناہ نہیں کہ تم چند آدمی ساتھ مل کر کھائو یا الگ الگ کھائو چونکہ تم اخلاقی باتوں کی تعلیم پاچکے ہو پس تم کو لازم ہے کہ جب تم اپنے یا احباب کے گھروں میں جائو تو اپنے لوگوں کو جو وہاں پر موجود ہوں مرد ہوں یا عورتیں سلام دیا کرو جو اللہ کی طرف سے پاکیزہ بابرکت تحفہ ہوگا اس کی وجہ سے اللہ تم پر برکت کرے گا اسی طرح اللہ تمہارے لئے احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو اور عمل کرو کیونکہ شریعت نازل کرنے اور رسول بھیجنے سے مقصود تو یہی ہے کہ لوگ تابع داری کریں نہ کہ زبانی باتیں بنائیں جو کسی کام نہ آئیں اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ مسلمان تو بس وہی لوگ ہیں جو اللہ کی الوہیت پر اور رسول کی رسالت پر ایمان لاویں اور جب کسی جمع ہونے کے کام میں جس میں جمعیت کی ضرورت ہو مثلا جنگ جہاد وغیرہ میں اس رسول کے ساتھ ہوں تو اذن لئے بغیر نہ جائیں غرض یہ کہ رسول کے احکام کو جان سے مانیں اور دل سے عزت کریں بس یہی لوگ ایماندار ہیں یہ مت سمجھو کہ ضرورت کے وقت اذن لے کر جانا بھی ایمانداری کے خلاف ہے نہیں جو لوگ ضرورت کے وقت اے نبی تجھے اذن لیتے ہیں کچھ شک نہیں کہ وہی لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں بھلا اگر وہ ایسے نہ ہوں تو چپکے سے نہ چلے جائیں ہاں جو لوگ بے وجہ اور بلا ضرورت اذن مانگا کرتے ہیں وہ ٹھیک نہیں پس جب یہ دیندار ایمان دار مخلص لوگ اپنی ضرورت کے موافق کسی کام کو جانے کی اے نبی ! تجھ سے اجازت چاہیں تو حسب مصلحت جس کو تو چاہے اجازت دیا کر یعنی جو آدمی ایسا ہو کہ اس کی غیر حاضری میں ضروریات نہیں رکھتیں اور انتظام میں فرق نہیں آتا تو اجازت دے دیا کر اور جو ایسا نہ ہو بلکہ اس کی غیر حاضری سے خلل انتظام کا خطرہ ہو تو اس کو اجازت مت دیا کر خواہ وہ اپنی ضرورت خانگی کیسی ہی بتلا دے کیونکہ یہاں کی قومی ضرورت شخصی ضرورت سے ہر طرح مقدم ہے اسی لئے یہ ضروری نہیں کہ جو کوئی اجازت چاہے ضرور ہی اسے اجازت دی جائے نہیں بلکہ اپنی مصلحت کا خیال رکھ کر اجازت دیا کر اور اللہ سے ان کے لئے بخشش مانگا کر گو انہوں نے حسب ضرورت ہی اجازت لی ہے تاہم نقص سے خالی نہیں پس یہ نقص اعمال تیرے استغفار سے ان کے حق میں پورا ہوجائے گا اور اس میں شک نہیں کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے