سورة النور - آیت 30

قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے پیغمبر مسلمان مردوں سے کہہ دے (عورتوں کے سامنے آئیں تو) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنے ستر کی نگہداشت سے غافل نہ ہوں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاک نفسی کا طریقہ ہوگا۔ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے علم سے پوشیدہ نہیں (١٧)۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(30۔31) اس لئے اے نبی ! تو ایمانداروں کو کہہ کہ چلتے پھرتے وقت اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو غیر جگہ سے بچاتے رہیں کسی طرح سے بھی کوئی ناجائز حرکت نہ کیا کریں یہ نظر کی بندش ان کے حق میں زیادہ صفائی کی موجب ہے اور یوں تو اللہ تعالیٰ کو ان کے سب کاموں کی خبر ہے یہ نہ سمجھیں کہ ہم نیچی نگاہوں سے جو برے ارادے اپنے اندر رکھیں گے ان کی اسے خبر نہ ہوگی سنو ! وہ سب کچھ جانتا ہے اسے کسی کے بتلانے کی حاجت نہیں وہ تو دلوں کے اندر کے حالات سے بھی آگاہ ہے پس اے نبی تو اس کے احکام کی تبلیغ میں لگا رہ اور اسی طرح ایماندار عورتوں سے کہہ دے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی غیر مردوں سے حفاظت کریں یعنی اپنے خاوندوں کے سوا کسی غیر مرد سے ملاپ نہ کریں اور اپنی سج دھج کو بھی ظاہر نہ کیا کریں لیکن جو چیز خود بخود کھلی رہے جس کا چھپنا کسی طرح نہیں ہوسکتا جیسے اوپر کی چادریا نقاب اور چلتے وقت اپنے سینوں پر دوپٹوں کی بکل مارا کریں اور اپنی زینت کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کیا کریں لیکن اپنے شوہروں کے سامنے یا اپنے باپوں باپ دادا۔ پر دادا نانا۔ پرنانا کے سامنے یا اپنے خاوندوں کے باپوں کے سامنے یا اپنے بیٹوں کے سامنے یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں کے سامنے جو دوسری بیویوں سے ہوں یا اپنے بھائیوں کے سامنے یا بھائیوں کے بیٹوں بھتیجوں کے یا بہنوں کے بیٹوں بھانجوں کے سامنے یا اپنی نوع انسان کی عورتوں یا اپنے مملوکہ غلاموں یا بسبب کبرسنی یا کسی دوسرے سبب سے بے حاجت خدمتگار مردوں یا بچوں کے سامنے جو عورتوں کے پردہ سے واقف نہیں ہوئے۔ یعنی ان کو ابھی یہ معلوم نہ ہو کہ عورت مرد کا کیا تعلق ہوتا ہے اس قسم کے لوگوں کے سامنے کسی عورت کا زیب و زینت ظاہر کرنا گناہ نہیں غرض جس طریق سے کسی قسم کی خرابی نہ پیدا ہو وہی کریں اسی لئے ان کو حکم ہوتا ہے کہ وہ پردہ کریں اور پردہ میں رہ کر بازار میں یا اپنے گھروں میں ایسے زور سے پائوں نہ مارا کریں کہ جھانجروں کی آواز سے ان کی چھپائی ہوئی زینت معلوم ہونے لگے اور بازار میں اس طرح نہ چلیں کہ دیکھنے والوں کی ٹکٹکی بندھ جائے اور بے ساختہ ان کے منہ سے نکلے انگلیاں سرد اٹھاتے کہ وہ آتے ہیں شوق سے گل کھلے جاتے ہیں کہ وہ آتے ہیں پس تم ایسا مت کرو اور تم سب مسلمان اللہ کی طرف لگے رہو تاکہ تم اپنی مراد پائو یعنی جس غرض و غائت (آخری سعادت) کیلئے تم پیدا کئے گئے ہو اور جس مطلب کیلئے دنیا میں آئے ہو وہ تمہیں معلوم ہے یہ کہ ؎ عدم سے جانب ہستی تلاش یار میں آئے اس مراد کو اسی طرح پائو گے کہ ہر آن اللہ کی طرف دھیان رکھو پس یہی تمام بھلائیوں کی جڑ ہے اسے ہی مضبوط ہاتھ سے پکڑے رہو (بعض علما جو اس لفظ ماظہر سے ہاتھ اور منہ مراد لیتے ہیں ان کے معنے کی صحت ناظرین خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ زن و مرد کی فریفتگی کا ہے سے ہوتی ہے صرف منہ سے بقول یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم ان کو چھوڑ بیٹھے ہیں جب آنکھیں چار ہوتی ہیں محبت آہی جاتی ہے جب یہ کیفیت ہے تو منہ کے کھلا رکھنے کی اجازت کیونکر موزوں ہوسکتی ہے علاوہ اس کے علم نحو کے قواعد سے ماظھر مستثنیٰ متصل ہے جس کا مستثنیٰ منہ زینت ہے اگر ہاتھ اور منہ مراد ہو تو مستثنیٰ متصل نہ رہے گا کیونکہ ہاتھ اور منہ زینت نہیں بلکہ محل زینت ہیں پس آیت میں دو لفظ زیر غور ہیں مستثنیٰ متصل اور ظھر فعل لازمی معنی یہ ہیں کہ جو زینت بلا اختیار ظاہر ہوجاوے وہ معاف ہے منہ زینت میں نہ خودبخود ظاہر ہوتا ہے بلکہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ مراد نہیں۔ منہ) بعض مفسر کہتے ہیں کہ اپنی عورتوں سے مراد مسلمان عورتیں ہیں نتیجہ اس کا یہ ہے کہ ان کے نزدیک مسلمان عورت کو غیر مسلمہ عورت سے پردہ کرنا چاہئے خواہ وہ عیسائن ہو یا یہودن مگر یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا کیونکہ پیغمبر اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حرم محترم کے پاس یہودیہ عورتیں آیا کرتی تھیں اور پردہ نہ ہوتا تھا علاوہ اس کے پردہ کی غرض و غائت تو فحش اور زناکاری کا روکنا ہے بس اسی فرض کو ملحوظ رکھ کر عورت کا عورت سے خواہ کسی ہی مذہب کی ہو پردہ کرنا ضروری بات معلوم ہوتی ہے اس لئے میں نے نوع انسان کی عورتیں مراد لی ہیں۔ (منہ)