سورة الحج - آیت 39

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جن (مومنوں) کے خلاف ظالموں نے جنگ کر رکھی ہے، اب انہیں بھی (اس کے جواب میں) جنگ کی رخصت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر سراسر ظلم ہورہا ہے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(39۔72) لو سنو ! جن لوگوں سے لڑائی کی جاتی ہے کفار ان سے لڑتے ہیں مارتے ہیں ستاتے ہیں تنگ کرتے ہیں ان کو بھی آج سے اجازت دی گئی ہے کہ بسم اللہ کر کے ہاتھ اٹھائیں کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی مدد ضرور کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے (صحابہ کرام کفار سے تنگ آگئے تھے اور بحکم تنگ آمد بجنگ لڑائی کے متمنی تھے ان کی تسلی کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ جہاد کے متعلق مفصل حاشیہ جلد ١ ص ١٣٦ پر ملاحظہ ہو۔ منہ) اب تو ان کی مظلومی کی کوئی حد نہیں رہی یہ لوگ وہی تو ہیں جو صرف اتنا کہنے پر کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اپنے گھروں سے بال بچوں سے دوست آشنائوں سے نکالے گئے اور ان پر طرح طرح کے ظلم و ستم توڑے گئے اب بھی اگر ان کو اجازت نہ ملے تو کب ملے بحالے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ عام قاعدہ ہے کہ جب ظلم اپنی حد سے متجاوز ہوجاتا ہے تو اللہ اس کی بیخ کنی کیا کرتا ہے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ بعض انسانوں کو ان کے ظلم کی وجہ سے دوسرے بعض انسانوں کے ذریعہ سے دفع نہ کرے تو عیسائیوں کی مظلومی کے وقت ان کے عبادت خانے گرج اور یہودیوں کی مظلومی کے وقت ان کے معبد‘ درویش خانے اور مسلمانوں کی مظلومی کے وقت ان کی مسجدیں جن میں اللہ کو بہت بہت یاد کیا جاتا ہے سب ویران ہوجاتیں مگر نہیں اللہ ضرور ان کی مدد کرتا ہے جو اس کے دین کی مدد کرتے ہیں بے شک اللہ کی مدد ہی سے بیڑا پارہے کیونکہ اللہ سب سے بڑا قوت والا غالب ہے جن لوگوں کو ہم نے ہاتھ اٹھانے کا اختیار دیا ہے یہ کوئی ایسے ویسے ظالم یا کج خلق نہیں ہیں بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک پر حکومت دیں گے تو نماز قائم کریں گے اور کرائیں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور دلوائیں گے اور نیک کاموں کا حکم کریں گے اور برے کاموں سے روکیں گے اور اس بات پر ایمان رکھیں گے کہ سب چیزوں کا انجام اللہ ہی کے قبضے میں ہے یہ تو گویا ان کا وظیفہ ہوگا ؎ ایں سعادت بزور بازو نیست تانہ بخشد اللہ بخشندہ یہ پیشگوئی تو ان کو سنادے اور گر یہ لوگ تیری تکذیب کریں تو کوئی نئی بات نہیں تجھ سے پہلے نوح کی قوم نے نوح کو اور قوم عاد نے اپنے پیغمبر ہود کو اور قوم ثمود نے اپنے پیغمبر صالح کو اور قوم ابراہیم نے ابراہیم کو اور قوم لوط نے لوط کو اور مدین والوں نے حضرت شعیب کو جھٹلایا تھا اور حضرت موسیٰ کی تکذیب کی گئی تو آخرکار پھر کیا ہوا؟ یہی کہ میں نے کافروں کو چند روزہ مہلت دی لگے وہ اسی پر اترانے اور غرور کرنے پس میں نے ان سب کو ایک دم پکڑ لیا اور خوب پچھاڑا پھر میرا غصہ کیسا ظاہر ہوا سو کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں ہم نے ان کو تباہ اور برباد کیا پس وہ اپنی چھتوں سمیت گری پڑی ہیں اور کئی ایک کنوئیں بیکار اور کتنے پکے محل ویران ہیں کیا انہوں نے زمین میں کبھی سیر نہیں کی اگر کرتے زرہ نظارہ عالم دیکھتے تو عبرت پاتے اور ان کے دل ایسے ہوتے کہ ان کے ساتھ سمجھتے اور کان ہوتے کہ ان کے ساتھ ہدایت کی باتیں سنتے کیا تم سمجھتے ہو کہ ان کے کان نہیں؟ ہیں کیا تم سمجھتے ہو کہ ان کی آنکھیں نہیں ہاں سب کچھ ہے کیونکہ ظاہری آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں وہ تو برابر دیکھتی رہتی ہیں بلکہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں چھپے رہتے ہیں دیکھو تو یہ کیا اندھاپن ہے؟ کہ بجائے عافیت طلبی کے تجھ سے عذاب کی جلدی کرتے ہیں کہتے ہیں ہم پر عذاب لے آ یہ نہیں کرتے کہ اللہ سے عافیت مانگیں حالانکہ اللہ ہرگز اپنا وعدہ خلاف نہ کرے گا جو وقت کسی کام کے لئے مقرر ہے اسی وقت پر وہ کام ہوتا ہے مگر اس کے ڈھیل دینے سے یہ لوگ فائدہ حاصل نہیں کرتے بلکہ الٹے الجھتے ہیں اور جلدی جلدی عذاب چاہتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ تیرے پروردگار کے ہاں ایک ایک دن تمہاری گنتی سے ہزار ہزار سال کے برابر ہے یعنی تم جس مدت کو ایک ہزار سال سمجھتے ہو وہ اللہ کے نزدیک ایک روز ہے کیونکہ جو جتنا حوصلہ مند اور طاقتور ہوتا ہے اسی قدر اسی کی بلند نظری اور وسیع الخیالی ہوتی ہے پس جو کام تمہاے نزدیک ایک ہزار سال کو ہونے والا ہو وہ سمجھو کہ اللہ کے نزدیک ایسا ہے جیسا کل کو پیش آنیوالا واقعہ ہے اسی لئے تو ان احمقوں کی جلد بازی سے میرے (یعنی اللہ کے) علم میں کوئی فرق نہیں آتا لیکن یہ مطلب نہیں کہ ان باغیوں کو میں یونہی چھوڑ دوں گا ہرگز نہیں ضرور پکڑوں گا اور خوب سزا دوں گا اسی طرح میں نے کئی ایک بستیوں کی قوموں کو باوجود یہ کہ وہ ظالم تھیں چند روز مہلت دی تھی جس سے وہ بہت اترائے تھے پھر میں نے ان کو خوب پکڑا ایسا کہ سب کو ہلاک کردیا اور ان کو یقین ہوگیا کہ میری طرف ہی سب نے پھرنا ہے پس اے رسول ! تو ان سب لوگوں کو مخاطب کر کے کہہ دے کے اے لوگو ! میں تو تم کو کھلم کھلا عذاب الٰہی سے ڈرانے والا ہوں پس جو لوگ ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں ان کے لئے بخشش اور عزت کا رزق ہوگا اور جو لوگ ہمارے حکموں کی مخالفت میں ہم کو جیتنے کی غرض سے کوشش کرتے ہیں وہی جہنم کے لائق ہوں گے باقی رہی یہ بات کہ رسول چاہتا ہے کہ دنیا کے لوگ سب مسلمان ہوجائیں مگر یہ آرزو اس کی پوری نہیں ہوتی سو یہ کوئی نئی بات نہیں اے رسول ! ہم نے تجھ سے پہلے جتنے رسول یا نبی بھیجے ہیں سب کو یہی واقعہ پش آتا رہا کہ جب کبھی انہوں نے کوئی آرزو دل میں جمائی تو شیطان نے ان کی آرزو میں وسوسہ ڈالا یعنی انہوں نے اگر کسی کام کی انجام دہی کی تمنا کی تو شیطان نے اس خواہش کو بڑھا کر اور بھی ترقی دی یہاں تک کہ عوام کے ذہن نشین ہوا کہ فلاں کام جس کے انجام کو پہنچنا پیغمبر صاحب نے چاہا تھا وہ بس ابھی ہوجائے گا حالانکہ مشیت الٰہی میں ایسا نہ ہوتا تھا پھر آخر کار جو ہوتا وہ منشا ایزدی کے موافق ہی ہوتا چنانچہ اللہ تعالیٰ شیطان کے ڈالے ہوئے خیالات اور خواہشات کو مٹا دیتا ہے اور اپنے ارشادات کو جو وحی کے ذریعہ سے بتلائے ہوئے ہیں محکم اور مضبوط کردیتا ہے یعنی ان کا وقوع اپنے حسب موقع ہوجاتا ہے گو پیغمبر کے منشا کے بر خلاف بھی کیوں نہ ہو مگر اللہ کے علم اور حکمت کے خلاف نہیں ہوتا کیونکہ اللہ بڑے علم والا اور بڑی حکمت والا ہے کوئی چیز اس کے علمی اور حکمی احاطہ سے باہر نہیں ہوسکتی انجام یہ ہوتا ہے کہ شیطان کا القاء کیا ہوا خیال مریض القلب اور سخت دلوں کے لئے موجب لغزش ہوتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جب یہ امر پیغمبر کے حسب منشا نہیں ہوا تو اس پغمبر کی صداقت اور اللہ کے نزدیک قربت کیسی ہوگی؟ اس آیت کے متعلق ایک روایت آئی ہے کہ : ” آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجمع کفار میں سورۃ النجم کی ایک آیت پڑھی جس میں ایک لفظ بتوں کی تعریف کا بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ سے نکل گیا جس پر مخالفین بھی خوش ہوئے مگر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر ہوئی چونکہ آپ کے قصد اور ارادہ سے یہ لفظ نہ نکلا تھا بلکہ بالکل بے خبری میں نکل گیا تھا۔ اس لئے آپ کو سخت رنج ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی کہ وہ لفظ جو بتوں کی تعریف کا نکلا تھا وہ شیطان کی حرکت سے تھا۔ تیرے ہی ساتھ ایسا نہیں ہوا بلکہ ہر ایک نبی کے ساتھ ایسا ہوتا رہا۔ “ مگر یہ روایت صحیح نہیں بلکہ قرآن و حدیث اور عقل کے بالکل برخلاف ہے قرآن شریف میں صاف ارشاد ہے ان عبادی لیس لک علیھم سلطن یعنی اللہ کے نیک بندوں پر شیطان کا اثر نہ ہوگا جب عام نیکوں پر اثر نہ ہونے کی خبر دی گئی ہے تو نبی خصوصاً سید الانبیاء علیہم السلام پر کیوں اثر ہونے لگا تھا۔ صحیح حدیث شریف میں آیا ہے لکن اللہ اعاننی علیہ فاسلم یعنی نبی اللہ نے شیطان پر مجھے فتح دی ہے میں اس کے شر سے محفوظ رہتا ہوں‘ عقل بھی اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ جس شخص کو اللہ اتنے بڑے منصب نبوت پر قائم کرے اس کو ایسے دشمن دین (شیطان) کے بس میں ایسا کیونکر چھوڑ دے کہ وہ اس پر ایسا قبضہ پاوے کہ اس کی مرضی کے خلاف بھی اس سے کوئی حرکت کرائے بلکہ تعلیم کرائے تو پھر اس کی باقی تعلیم کا اعتبار کیا رہے گا۔ مفصل بحث اس حدیث اور اس کی تکذیب کے متعلق تفسیر کبیر وغیرہ میں مذکور ہے۔ میرے خیال میں اس قصہ کی مثال میں حدیبیہ کا قصہ پیش ہوسکتا ہے جس کی تفصیل یوں ہے کہ آنحضرت کو خواب آیا کہ ہم کعبہ شریف میں طواف کرنے کو داخل ہوئے ہیں اس خواب کا آنا تھا کہ حضور (علیہ السلام) مع مسلمانوں کے مکہ شریف کو روانہ ہوگئے جب قریب مکہ معظمہ کے پہنچے تو کفار مکہ نے داخل ہونے سے روک دیا اس پر صحابہ کرام اور خود حضور (علیہ السلام) کو بھی سخت ملال ہوا۔ بعض صحابہ نے طیش میں آن کر سختی سے اعتراضات بھی کئے مگر منشاء الٰہی ایسا ہی تھا کہ اس سال خواب کا ظہور نہ ہوگا۔ آخر کار صلح ہوئی اور وعدہ ہوا کہ آئندہ سال آئو اور تین روز بغیر ہتھیاروں کے مکہ میں داخل ہو کر اپنا کام کر جائو۔ جو تاریخ علم الٰہی میں مقرر تھی وہ صحیح رہی اور جو خواہش نبوی یعنی تمنی تھی وہ پوری نہ ہوئی۔ یہ قصہ اس آیت کی تفسیر میں ایک مثال ہے اسی قسم کے اور بھی بہت سے واقعات ہیں جن میں منشا نبوی کا منشا الٰہی کے ماتحت ہونا ثابت ہوتا ہے مگر جو لوگ عجائب پرست ہیں ان کی ایسی بے ثبوت باتوں سے دلچسپی ہے جو محققین کے ہاں پسند نہیں۔ والعلم عنداللہ (منہ) وہ اس سے الٹا نتیجہ نکالتے ہیں حالانکہ نتیجہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ یہ سمجھتے جس طرح اور انسان اور مخلوق اللہ ذوالجلال والاکرام کے زیر فرمان ہیں حضرات انبیاء بھی اسی طرح فرمانبردار ہیں یہ پیغمبر ہیں تو وہ اللہ ہے یہ مقرب بندے ہیں تو وہ مالک برتر ہے کچھ شک نہیں کہ ظالم اسی لئے تو پرلے درجہ کی گمراہی میں ہیں ان کو اس بات کی تمیز نہیں کہ اللہ کون ہے اور رسول کون وہ جانتے ہیں اللہ بھی رسول کی مرضی کا تابع ہوتا ہے اور جو علم والے ہیں وہ جان جاتے ہیں کہ یہ طریق اصل وحی بالکل سچ ہے تیرے پروردگار کی طرف سے کیونکہ رسول ہو یا نبی ولی ہو یا غوث اللہ پر کسی کو جبر نہیں کہ جو کچھ وہ کہیں اللہ بھی وہی کرے بلکہ یہ تو کمال صفائی اور رسولوں کی سچائی کی دلیل ہے کہ وہ اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی کے تابع کردیتے ہیں کسی قسم کا تکلف یا تصنع نہیں کرتے پس وہ علم والے یہ صفائی ان کی دیکھ کر اس پر ایمان لے آتے ہیں اور ان کے دل اللہ کا مالکانہ تصرف دیکھ کر اس کی طرف جھک جاتے ہیں اور اللہ بھی ایسے ایمانداروں کو سیدھی راہ کی طرف راہ نمائی فرماتا ہے یعنی توفیق خیر بخشتا ہے باقی رہے کافر سو وہ تو ہمیشہ اس سے شک میں رہیں گے یہاں تک کہ ان پر موت کی گھڑی ناگہاں آپہنچے یا قیامت کے منحوس دن کا عذاب ان پر آجائے جو ان کے حق میں واقعی منحوس ہوگا گو باقی لوگوں کے لئے باعث فلاح و آسائش ہوگا اس روز اختیار سارا اللہ ہی کو ہوگا ظاہری اور مجازی حکومت بھی کسی مخلوق کو نہ ہوگی اللہ ان میں آپ فیصلہ کرے گا پس جو لوگ ایمان لا کر نیک عمل کئے ہوں گے وہ نعمتوں کے باغات میں ہوں گے اور جو لوگ منکر ہیں اور ہمارے (یعنی اللہ کے) احکام اور آیات کی تکذیب کرتے ہیں انہی کو ذلت کا عذاب پہنچے گا پس سوچ لو کہ کونسی جانب بہتر ہے اور ایمانداروں میں بالخصوص جو لوگ اللہ کی راہ میں کفار سے تنگ آکر اپنے وطن چھوڑ آئے پھر وہ اسی پر نازاں نہیں رہے۔ کہ ہم نے ہجرت کی ہے بس یہی کام ہمارا کافی ہے بلکہ اللہ کی راہ میں لڑکر مارے بھی گئے یا خود ہی اپنی طبعی موت سے مرے تو ضرور اللہ ان کو جنت میں عمدہ رزق دے گا اور اللہ ہی سب سے اچھا رزق دینے والا ہے بے شک ان کو ایک ایسی جگہ میں داخل کرے گا جسے وہ پسند کریں گے کچھ شک نہیں کہ اللہ سب کو جانتا اور بڑے حوصلہ والا ہے یہی تو وجہ ہے کہ لوگوں کی ایسی نامعقول حرکات پر بھی عذاب نہیں بھیجتا بات یہ ہے جو ذکر ہوئی کہ اللہ نیک بندوں کو رزق جنت دے گا اور جو دشمن کو اسی قدر ستائے جتنا کہ اس کو ستا یا گیا ہے یعنی اس سے زیادہ ظلم نہ کرے بلکہ اسی ظلم کی مدافعت کرے یا اسی جتنا بدلہ لے مگر ظالم کی طرف سے پھر اس پر بغاوت کی جائے تو اللہ اس کی ضرور مدد کرے گا خواہ اس کی عزت افزائی سے کرے یا دشمن کی روسیاہی سے غرض جس طرح متصور ہو اس کی مدد کرے گا کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بڑاہی معاف کرنے والا ہے بخشنے والا ہے پس تم کو بھی چاہئے کہ آپس میں معافی سے کام لیا کرو یہ مظلوموں کی حمائت اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں یعنی کل دنیا کا انتظام اسی کے قبضہ قدرت میں ہے پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ اپنے مظلوم بندوں کی خبر گیری نہ کرے اور یہ کہ اللہ سب کی سننے والا دیکھنے والا ہے یہ اس درجہ قوت بصارت اس لئے ہے کہ اللہ ہی معبود برحق ہے وہی حقیقی معبود ہے اور اس کے سوا جن چیزوں کو یہ لوگ پکارتے ہیں یا استمداد کرتے ہیں وہ بالکل باطل اور بے بنیاد غیر مستقل بالوجود ہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی بڑا عالیشان اور سب سے بڑا ہے اس کی بڑائی کے نبوت پر تمام کائنات گواہ ہے کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ اوپر کی طرف سے پانی اتارتا ہے پھر اس پانی کے ساتھ زمین سرسبز ہوجاتی ہے ایسی کہ وہی زمین ہے کہ اس پر نظر کرنے سے جی گھبراتا ہے آخر وہی ہے کہ آنکھوں کو تازگی بخشتی ہے یہ تفاوت کیوں؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ بڑا ہی مہربان سب کے حال سے خبردار ہے اس کی مہربانی کا یہ مقتضا ہے کہ مخلوق کی پرورش کرتا ہے اسکی حکومت کا کیا حساب ہے جو کچھ آسمانوں یعنی اوپر کی جانب میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے یہ سب اسی ذات ستودہ صفات کا ہے جس کا نام اللہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات میں یہ بڑی صفت ہے کہ وہ بذات خود مخلوق سے بے پرواہ یعنی بے حاجت اور ستودہ صفات ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ جو کچھ زمین پر ہے اللہ نے تمہارے لئے بلا اجرت کس طرح کام میں لگا رکھا ہے اور بڑے بڑے جہاز بھی تمہارے فائدے کیلئے سمندر میں اس اللہ کے حکم اور اذن کیساتھ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر چلتے ہیں بھلا اگر اللہ لکڑی اور لوہا نہ بناتا تو کس کی مجال تھی کہ یہ چیزیں بنا سکتا اور سنو ! وہی اللہ تعالیٰ آسمان کو زمین پر بغیر حکم گرنے سے روکے ہوئے ہے ایسے قابو ہیں کیا مجال کہ اس کے حکم بغیر اپنی جگہ سے ہل بھی جائیں کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے حال پر بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے وہی اللہ ہے جس نے تم کو جاندار بنایا پھر تم کو جس کی موت آچکی ہے مار دیتا ہے پھر تم کو زندہ کرے گا غرض ہر وقت وہ تم پر کامل اختیار رکھتا ہے تاہم لوگ اس کے شکر گذار نہیں ہوتے بلکہ الٹے نافرمانی کرتے ہیں کچھ شک نہیں کہ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے ایک ناشکری ان کی کفران نعمت ہے دوسری ناشکری یہ بھی ہے کہ خود تو کچھ کرتے کراتے نہیں الٹا کام کرنے والوں پر منہ پھاڑ پھاڑ کر اعتراض کرتے ہیں چنانچہ یہ تمہارے مخالف تمہاری ہر نقل و حرکت پر اعتراض کرتے ہیں کبھی نماز پر ہے تو کبھی زکوٰۃ پر کبھی حج پر ہے تو کبھی قربانی پر حالانکہ ہر ایک قوم کے لئے ہم نے قربانی کے طریق مقرر کر دئیے ہیں جس پر وہ اپنے اپنے وقتوں میں کاربند بھی رہے پس اب ان لوگوں کو چاہئے کہ دین کے بارے میں تجھ سے نزاع نہ کریں اور تو بھی ان کی پرواہ نہ کیا کر کہنے والے کہتے ہیں کرنے والے کرتے ہیں پس تو اللہ کی طرف لگا رہ اور مستعد ہو کر اپنے پروردگار کی طرف لوگوں کو بلاتا رہ بے شک تو سیدھی ہدایت پر ہے اگر تجھ سے بے ہودہ جھگڑا کریں تو تو کہہ دیا کر اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو خوب جانتا ہے جس نیت اور جس اراد سے تم جھگڑتے اور مجادلات کرتے ہو اللہ کو خوب معلوم ہے وہی قیامت کے روز تمہارے اختلافی امور میں فیصلہ کرے گا گو دنیا میں بھی بعض اوقات وہ مجرموں کو سزا دے کر فیصلہ کردیتا ہے مگر دنیا کی سزا کو بہت سے لوگ ایک معمولی جانتے ہیں اور گردش زمانہ تصور کرتے ہیں لیکن قیامت کے روز ایسا نہ ہوگا اگر تم کو یہ شبہ ہو کہ اللہ کو ہمارے پوشیدہ امور سے کیا خبر تو یہ تمہاری جہالت ہے کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین کی چھپی چیزوں کو بھی جانتا ہے کچھ شک نہیں یہ سب کچھ کتاب الٰہی یعنی اس کے کامل علم میں موجود ہے بے شک یہ اللہ کے نزدیک آسان کام ہے مگر ان لوگوں کے حال پر کیسا افسوس ہے کہ ایسے ملک الملک کو تو چھوڑتے ہیں اور اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جن کی بابت نہ تو اللہ نے کوئی دلیل اتاری ہے نہ خود ان کو ان چیزوں کا یقینی علم ہے مگر ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی کئے جاتے ہیں اسی لئے تو اپنی عاقبت تباہ کرتے ہیں اور اپنے لئے کانٹے بو رہے ہیں کیونکہ ایسے ظالموں کے لئے کوئی حمائتی اور مددگار نہ ہوگا اس سے بڑھ کر کیا کہ نہ تو خود عمل کرتے ہیں اور نہ عمل کرنے والوں کو چین لینے دیتے ہیں اور جب ان کو ہمارے کھلے کھلے احکام پڑھ کر سنائے جاتے ہیں جن میں توحید کا ثبوت اور شرک کا رد ہوتا ہے تو تم کافروں اور منکروں کے چہروں میں ناراضگی سی معلوم کرتے ہو ایسے بگڑجاتے ہیں قریب ہوتا ہے کہ جو لوگ ہمارے احکام متعلقہ توحید و رسالت ان کو پڑھ کر سناتے ہیں ان پر ٹوٹ پڑیں اس قدر ان کو جوش آجاتا ہے کہ لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے ہیں حالانکہ بے جا جوش ہوتا ہے بھلا جوش دکھانے سے کیا حقانیت ثابت ہوسکتی ہے۔ تو اے نبی ان سے کہہ اگر تم ان مسلمان قرآن پڑھنے والوں پر بسبب ان کی کسی برائی کے حملہ آور ہوتے ہو تو کیا میں تمہیں اس سے بھی بری چیز بتائوں جو سچ پوچھو تو سب بری چیزوں سے بری ہے وہ آگ ہے جس کا اللہ نے کافروں اور توحید کے منکروں سے وعدہ کیا ہوا ہے اور وہ بری جگہ ہے ایسی بری جگہ ہے کہ گویا سب برائیوں کا مجموعہ ہے اس میں داخل بھی ایسے ہی لوگ ہوں گے جن میں سب برائیوں کا مجموعہ یعنی شرک کے مرتکب ہوں گے