سورة الأنبياء - آیت 31

وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ہم نے زمین میں جمے ہوئے پہاڑ بنا دیئے کہ ایک طرف کو ان کے ساتھ جھک نہ پڑے اور ہم نے ان میں (یعنی پہاڑوں میں) ایسے درے بنا دیے کہ راستوں کا کام دیتے ہیں، تاکہ لوگ اپنی منزل مقصود پالیں۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(31۔50) اور سنو ہم نے زمین پر بڑے بڑے اٹل پہاڑ پیدا کئے ہیں تاکہ وہ زمین اپنے ہلکے پن سے ان کو کہیں لے نہ گرے جیسے بیڑی کے ہلکے پن کے مقابلہ کیلئے لوہا لگا دیتے ہیں اسی طرح اللہ نے زمین کا ہلکا پن دور کرنے کو پہاڑ پیدا کردئیے اور زمین میں ہم نے کھلے کھلے راستے بنائے ہیں میدانوں اور پہاڑی جنگلوں بیابانوں میں قدرتی راستے بنے ہوئے ملتے ہیں کیوں؟ تاکہ یہ لوگ اپنے مطلب پر راہ پاسکیں اور دیکھو ہم نے اس نیلگون آسمان کو کیا محفوظ چھت کی طرح لوگوں کے سروں پر بنایا اور یہ لوگ پھر بھی اس کے نشانوں سے روگردان ہیں یہ نہیں جانتے کہ آسمان و زمین کی تبدیلی رات و دن کا ہیر و پھیر کیوں ہے اور کس لئے ہے؟ آہ ان کو علم نہیں کہ کوئی محبوب ہے اس پردہ زنگاری میں اور سنو ! وہی پاک ذات ہے جس نے تمہارے لئے رات دن سورج اور چاند وغیرہ سیارے بنائے تاکہ تمہاری حاجات میں معین ہوں دیکھو قدرت کا نظارہ کہ ہر ایک ان میں کا اپنے اپنے محور میں گھوم رہا ہے مجال نہیں کوئی کسی سے ٹکرائے یا کوئی کسی کی سیر اور گردش میں خلل ڈالے ایسے ایسے قدرت کے نشان دیکھ کر بھی مالک الملک کے حکم سے رو گردان ہوتے ہیں اور فضول اور لغو اعتراضات اور ہوسیں لیے بیٹھے ہیں دیکھو تو یہ ان کی کیسی بیہودہ ہوس ہے کہ چلو میاں اس مدعی نبوت کا ایک نہ ایک روز خاتمہ ہوجائے گا۔ چند روز کی بات ہے۔ مر جائے گا تو کوئی اس کا نام بھی نہیں لے گا لیکن نادان اتنا نہیں جانتے کہ ہم نے تجھ سے پہلے کسی آدمی کو ہمیشہ کیلئے نہیں رکھا پھر تو اے رسول مر گیا تو کیا یہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں گے؟ ہرگز نہیں پھر کسی کے مرنے سے کیا ہوتا ہے اسی لئے تو کسی دانا نے کیا اچھا کہا ہے ؎ مرا بمرگ عدو جائے شادمانی نیست کہ زندگانی مانیز جادو فی نیست کچھ شک نہیں کہ ہر ایک جان نے موت کا مزہ چکھنا ہے کسی نہ کسی روز اس پر فنا ضرور آئے گی جن لوگوں کے دلوں پر اس کا نقشہ پورے طور سے جم چکا ہے وہ اس پر دل نہیں لگاتے پس تم ہوشیار ہوجائو ہم (اللہ) تم کو بری بھلی باتوں سے جانچتے ہیں کبھی تم کو آرام پہنچاتے ہیں کبھی تکلیف کبھی گرانی کبھی ارزانی تاکہ تمہاری لیاقت کا اظہار ہو کہ تم ان حالات میں کیا سبیل اختیار کرتے ہوسنو ! اس بات کو ذہن نشین کر رکھو کہ تم ہمارے قبضے سے نکل نہیں سکتے اور بعد مرنے کے ہماری ہی طرف تم پھیر کر آئو گے اور نیک و بد کا بدلہ سب لوگ پاویں گے مگر افسوس ہے ان کے حال پر کہ بجائے ہدائت پانے کے الٹے اکڑتے ہیں اور کافر لوگ اے رسول جب تجھ کو چلتا پھرتا دیکھتے ہیں پس تو آپس میں تیری ہنسی اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کیا یہی ہے جو تمہارے معبودوں کو برائی سے یاد کیا کرتا ہے اور وہ خود اللہ رحمان کی یاد اور نصتحک سے منکر ہیں جانتے ہی نہیں کہ اللہ کون ہے جب اللہ ہی کو جواب دے بیٹھے ہیں تو رسول کو کیا جانیں۔ ہاں یہ جانتے ہیں کہ جو کچھ ہم کو پیش آنا ہے ابھی آجائے کیونکہ انسان کی پیدائش یہی گویا جلدی سے ہے گو اس کا مادہ پیدائش تو عناصر اربع ہیں مگر اس کی طبیعت ہیں ہر کام کی جلدی ایسی کچھ مضر ہے کہ یہ کہنا کچھ بیجا نہیں کہ گویا اس کی پیدائش کا خمیر ہی جلدی سے بنا ہوا ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ جلدی بھی تم اس لئے کرتے ہو کہ تم کو یقین ہے کہ عذاب وغیرہ کچھ نہیں صرف منہ کی باتیں ہیں اس لئے میں (اللہ) بہت جلد تم کو اپنی قدرت کے نشان دکھلائوں گا پس تم مجھ سے جلدی نہ چاہو اس میں تمہارا ہی بھلا ہے اور سنو ! یہ دھمکی سن کر اور اکڑ کر کہتے ہیں کہ یہ وعدہ جس کا تم ہمیں ڈر سناتے ہو کب ہوگا اگر تم مسلمان سچے ہو تو پتہ بتلائو اے کاش ! یہ کافر اس وقت کی اصلیت کو جانیں جس وقت نہ اپنے منہ سے نہ اپنی پیٹھوں سے آگ کے عذاب کو روک سکیں گے اور نہ کسی طرف سے مدد کئے جائیں گے بلکہ ناگاہ وہ گھڑی ان پر آکر ان کو حیران کردے گی پس وہ اس کو کسی طرح رد نہ کرسکیں گے اور نہ ان کو کسی طرح کی کچھ مہلت ملے گی کیا ہوا اس وقت یہ تیرے ساتھ ہنسی مخول کر رہے ہیں تجھ سے پہلے بھی کئی ایک رسولوں سے ہنسی کی گئی پس جو لوگ اون رسولوں سے مسخری کرتے تھے انہی پر وہ عذاب نازل ہوا جس کی وہ ہنسی کرتے تھے یعنی جس عذاب کی خبر سن کر وہ مخول کیا کرتے تھے اسی نے ان کو آگھیرا پھر آخر کچھ نہ بن سکا اسی طرح ان کا حال ہوگا۔ اگر یہ اعتبار نہ کریں اور اللہ کی پکڑ سے نہ ڈریں تو تو ان سے پوچھ کہ تم جو اتنے سرمست ہوئے پھرتے ہو بتلائو تو رات دن میں تم کو اللہ مہربان کے عذاب سے کون بچا سکتا ہے؟ یعنی اگر وہ تم کو کسی وقت پکڑنا چاہے رات ہو یا دن کون تم کو اس کی پکڑ سے بچا سکتا ہے کچھ شک نہیں کہ اللہ ہی کی حفاظت سے بچائو ہوتا ہے سچ ہے نہ چپ وراست سے گر ہووے تری نصرت دیاری نہ ترا عرش سے تا فرش اگر فیض ہوجاری تو کہے کیونکہ الٰہی یہ الٰہی تجھے ساری تو اللہ یمینی تو اللہ یساری تو اللہ زمینی تو اللہ سمائی اللہ کے سوا کوئی ان کا محافظ نہیں لیکن یہ لوگ خود ہی اپنے پروردگار کے ذکر سے روگردان ہیں کیا ان کا گمان ہے کہ ہم ان کو نہ پکڑ سکیں گے کیا ان کے اور معبود ہیں جو ان کی ہم سے الگ الگ ہی حفاظت کرسکتے ہیں ہرگز نہیں وہ تو خود اپنے نفسوں کی مدد بھی نہیں کرسکتے اور نہ وہ ہماری طرف سے ساتھ دئے جائیں گے بات یہ ہے کہ ہم (اللہ) نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو دنیا میں آسودہ کیا ہے پس بحکم کر مہائے تو مارا کرد گستاخ خوب بگڑے یہاں تک کہ ان کی عمریں دراز ہوئیں اور مال و دولت سے خوب آسودہ ہوئے تو اللہ مالک الملک سے مستغنی ہوگئے اور گمراہی میں گر پڑے پھر لگے اللہ تک پہونچنے اور بڑہانکنے کہ ہمارے برابر کوئی نہیں کیا یہ لوگ اتنا بھی نہیں دیکھتے کہ چاروں طرف اسلام کی اشاعت ہونے سے ہم ان کی کفر کی زمین کو گھٹاتے چلے آتے ہیں جس سے ان کا قافیہ تنگ ہورہا ہے کیا پھر بھی یہ غالب آئیں گے اے رسول (علیہ السلام) تو ان سے کہہ دے کہ سنو یا نہ سنو میں تو تم کو صرف حکم الہی کے ساتھ ڈراتا ہوں مگر بات یہ ہے کہ تم دنیا میں ایسے منہمک ہوگئے ہو کہ گویا بہرے ہورہے ہو اور بہروں کو جب سمجھایا جاتا ہے تو وہ کسی کی پکار سنتے نہیں سو یہی حال ان کا ہے ایسے دیوانہ وار جاتے ہیں کہ بس کچھ دیکھتے ہی نہیں اور اگر ان کو اللہ کے عذاب کی ذرہ سی ہوا بھی لگ جائے تو بس فورا کہنے لگ جائیں گے کہ ہم ہی ظالم تھے جو کچھ ہم کو پہونچا ہے ہماری ہی بداعمالی کا نتیجہ ہے یعنی اس وقت اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے مگر اب نہیں کرتے اچھا کیا ہوا بکری کی ماں کب تک خیر منائیں گی اور کب تک یہ لوگ مستانہ حالت میں اکڑتے پھریں گے آخر ایک روز ہم (اللہ) سب کے سامنے قیامت کے دن انصاف کا ترازو لگائیں گے جس سے نیک و بد اعمال نمایاں ہوجائیں گے پھر تو سب کے راز نہاں کھل جائیں گے اور کسی نفس پر کسی طرح سے ظلم نہ ہوگا یہاں تک کہ کوئی کام اگر رائی کے دانے کے برابر بھی ہوگا تو ہم اس کو بھی اس عامل کے سامنے لے آئیں گے اور ہم خود اپنے علم کے زور سے حساب کرنے کو کافی ہیں کسی کی رپورٹ یا خبر رسانی کے ہم محتاج نہیں دیکھو انہی باتوں کے ذہن نشین کرنے اور مخلوق کو راہ راست پر لانے کیلئے ہم (اللہ) نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کو حق و باطل میں تمیز اور فرق کرنے والی (کتاب) یعنی توریت اور ہدایت کی روشنی اور پر ہزا گاروں کا دستوالعمل دیا یعنی ان لوگوں کا وہ دستورالعمل تھا جو اپنے پروردگار سے بن دیکھے خوف کرتے ہیں اور وہ قیامت کی گھڑی سے بھی کانپتے ہیں اسی طرح یہ قرآن بابرکت نصیحت کی کتاب ہے جو ہم نے اتاری ہے جس کا اترنا کوئی نیا نہیں کیا تم اس سے منکر ہو ! ہائے افسوس ! تم اتنا نہیں سوچتے کہ اس انکار کا نتیجہ تمہارے حق میں کیا ہوگا اور اس کی پاداش تمہارے عوض کون اٹھائے گا یہ بھی ایک تمہاری ڈبل غلطی ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ قرآن اور یہ رسول نیا آیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہم ابتدائے دنیا سے لوگوں کی ہدایت کیلئے ہمیشہ سے رسول بھیجتے رہے ہیں اور مختلف لوگوں کو اس خدمت پر مامور کیا