سورة مريم - آیت 41

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغمبر) الکتاب میں ابراہیم کا ذکر کر۔ یقینا وہ مجسم سچائی تھا اور اللہ کا نبی تھا۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(41۔50) اور بغرض تفہیم ان کے جدامجد حضرت ابراہیم کا قصہ ان کو سنا کچھ شک نہیں کہ وہ بڑا ہی راست باز اور اللہ کا نبی تھا دیکھو تو اس کی راست بازی کہ تمام قوم کے سامنے ایک سچی بات پر جم گیا ایسا کہ سب مخالف مگر وہ اللہ کا بندہ اکیلا ہی تھا جو سب کا مقابلہ کرتا رہا سنو ! جب اس نے اپنے باپ سے کہا اور کیسا نرمی سے کہا اور ادب کو ملحوظ رکھ کر کہاے بابا تو کیوں ایسی چیزوں کی عبادت کرتا ہے جو نہ تو تیری پکار کو سنتی ہیں اور نہ تیری حاجت کو دیکھتی ہیں اور نہ تجھ سے کچھ بلا دفعہ کرسکتی ہیں پھر ایسے معبودوں کی عبادت سے کیا حاصل؟ اے بابا مجھے اللہ کی طرف سے علم پہنچا ہے جو تجھے نہیں پہنچا پس تو میری تابع داری کر میں تجھے سیدھی راہ کی ہدایت کروں گا۔ اے میرے بابا تو شیطان کی عبادت نہ کر یعنی اس کے بہکانے میں نہ آکہ اس کے سوا اوروں کی عبادت کرنے لگ جائے میں سچ سچ کہتا ہوں کہ بے شک شیطان اس اللہ تعالیٰ کا جو تمام دنیا سے بڑا رحمن اور مہربان ہے اس کا بھی نا شکرا اور بے فرمان ہے اے میرے بابا مجھے خوف ہے کہ تجھے اللہ رحمن سے کوئی عذاب نہ پہنچ جائے گو وہ بڑا ہی مہربان ہے مگر شرک تو ایسی بری بلا اور آفت ہے کہ رحمٰن کو بھی غضب آجاتا ہے اس لئے مجھے خطرہ ہے کہ تجھے کوئی آفت نہ پہنچ جائے پھر تو بھی شیطان مردود کا قریبی تعلق دار ہوجائے گا پھر تو جو اس کا حال ہوگا وہی تیرا اس معقول تقریر کا جواب تو ابراہیم کے باپ سے ہونہ سکا البتہ بقول ؎ چو حجت نماند جفا جوئے را بہ پیکار گردن کشد روئے را تنگ آمد بجنگ آمد پر عمل کرنے کو اس نے کہا اے ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے روگردان ہے؟ یاد رکھ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا اور پتھروں سے ماردوں گا اور اپنی خیر چاہتا ہے تو اس خیال سے باز آجا یا مجھ سے دور ہوجا حضرت ابراہیم نے سمجھا کہ یہاں معاملہ دگر گوں ہے ان تلوں میں تیل نہیں کہا کیجئے سلام مگر میں آپ کی خیر خواہی میں کبھی پہلو تہی اور غفلت نہ کروں گا بلکہ ہمیشہ تیرے لئے اپنے پروردگار سے بخشش مانگتا رہوں گا بلکہ شاید کسی وقت قبول ہوجائے اور اللہ تجھے ہدایت کرے کیونکہ میرا پروردگار میرے حال پر بڑا ہی مہربان ہے مجھے امید ہے کہ اگر تیری شقاوت ہی تیرے سر نہ چڑھی ہوگی تو ضرور وہ تجھے قابل بخشش بنادے گا اور میں تم سے اور تمہارے معبودوں سے جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو الگ ہوتا ہوں میں نے ان سے کیا لینا ہے اور تم سے کیا میں تو اپنے پروردگار سے دعائیں مانگتا ہوں جس کے قبضے میں میرا سب کچھ ہے پھر جب ابراہیم ان سے اور ان کے معبودوں سے جن کی وہ اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے الگ ہوگیا اور کنارہ کشی اختیار کی تو ہم نے اس کو اس صبر اور استقلال پر بیٹا اسحٰق اور پوتا یعقوب دیا اور سب کو نبی بنایا اور اپنی رحمت سے ان کو حصہ وافر دیا اور ان کی سچی تعریف بلند کی تمام ملک میں ان کا ذکر خیر بڑی سچائی اور راست گوئی سے ہو رہا ہے نہ کہ اور بزرگوں کی طرح کہ کوئی تو ان کو اللہ کا بیٹا بنا رہا ہے تو کوئی خود اللہ ہی سمجھ بیٹھا ہے لیکن ابراہیم اور یعقوب کی نسبت جو کچھ ان کی صلاحیت کا اعتقاد رکھتے ہیں وہ بالکل بجا ہے پس اس قصے کو تو بالاختصار یہاں تک پہنچا کر رہنے دے