وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا
اور (اے پیغمبر) ان لوگوں کی ایک مثال سنا دو، دو آدمی تھے، ان میں سے ایک کے لیے ہم نے انگور کے دو باغ مہیا کردیئے، گردا گرد کھجور کے درختوں کا احاطہ تھا، بیچ کی زمین میں کھیتھی تھی۔
(32۔59) پس ان کے دماغ سے دنیا کی محبت اور مدار کار ہونا نکالنے کو تو ان کو دو آدمیوں کی ایک مثال یعنی حکائت سنا جو گذشتہ زمانہ میں ایک باپ کے دو بیٹے تھے بعد تقسیم جائیداد الگ الگ ہوگئے ایک تو دنیا کے کمانے میں لگ گیا اور ایک علم اور زہد میں مشغول ہوا۔ ان میں سے ایک کو جو دنیا کمانے میں لگا تھا۔ ہم نے انگوروں کے دو باغ دئیے تھے اور ان کے ارد گرد کھجوروں کے درختوں سے روک کردی تھی اور انکے درمیان کھیتی باڑی سبزی بقولات وغیرہ پیدا کی تھی یعنی وہ باغ اس ڈھب کے تھے کہ درمیان ان کے کھیتی اور بقولات (سبزیاں) تھیں ان کے ارد گرد درخت سب سے اخیر چار دیواری کے طور پر کھجوریں لگائی گئی تھیں پس وہ دونوں باغ خوب پھل دیتے تھے اور معمولی پھل سے انہوں نے کبھی کچھ کم نہ کیا اور ہم نے ان کے درمیان ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی اور اس مالک کے پاس ان باغوں کی وجہ سے ہر قسم کے پھل پھول مہیا تھے پس اس نے ایک روز دولت اور مال کے گھمنڈ میں اپنے ساتھی یعنی غریب بھائی سے باتیں کرتے کرتے کہا کہ میں تجھ سے زیادہ مالدار اور بڑے زبردست معزز جتھے والا ہوں یعنی دنیاوی خدم حشم میرے بہت ہیں یہ کہہ کر اترایا اور اپنے باغ میں داخل ہوا ایسے ہال میں کہ وہ بوجہ سر کشی اور تکبر کے اپنے نفس پر ظلم کر رہا تھا بولا کہ میں تو نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی بھی ویران ہوگا اور میں تو نہیں سمجھتا کہ قیامت آنے والی ہے اور اگر میں فرضا اپنے پروردگار کی طرف گیا بھی یعنی قیامت ہوئی بھی تو چونکہ میں یہاں معزز اور مالدار ہوں اس لئے یقین ہے کہ وہاں بھی اچھا رہوں گا بلکہ اس سے بھی عمدہ جگہ پائوں گا اس پر اس کے ساتھی نے جو غریب اور کم وسعت مگر دیندار تھا اس کی متکبرانہ گفتگو سن کر باتیں کرتے ہوئے اس سے کہا کہ تو جو قیامت سے انکاری ہے کیا تو اپنے پروردگار سے منکر ہے جس نے تجھ کو مٹی سے پیدا کیا ہے یعنی تیرے بابا آدم کو مٹی سے بنا کر انسان کی پیدائش کا سلسلہ چلایا پھر بنی آدم کو نطفہ سے پیدا کیا پھر تجھ کو درست اندام پورا آدمی بنایا تو بھی ایسے کلمات اللہ کی شان میں کہتا ہے اور اس دنیائے دنی پر مغرور ہے اتنا نہیں جانتا کہ جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے لیکن میں تو اس خیال پر ہوں کہ اللہ ہی میرا پروردگار رہے اور بس اس سے زائد کیا کہوں اللہ بس باقی ہوس اور میں اپنے پروردگار کے ساتھ ہرگز کسی چیز کو شریک اور ساجھی نہیں بناتا ایسے متکبرانہ کلمات اور غرور سے کیا فائدہ بھلا تیرا اس میں کیا حرج تھا کہ جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تھا تو بجائے مغرورانہ گفتگو کے تو یہ کہتا کہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہوا ہے یہ باغ بھی محض اللہ کی مشیت اور ارادے سے ہے ورنہ میں اس لائق کہاں تھا کہ مجھے یہ نعمت ملے مجھ میں تو بے مدد اللہ کے نہ طاقت ہے نہ قوت تو نہیں جانتا کہ ؎ ایں شجاعت بزور بازو نیست تانہ بخشد اللہ بخشندہ باقی رہا یہ کہ میں غریب ہوں تو امیر ہے سو ان باتونکی مجھے پرواہ نہیں میں نے پہلے ہی سے سبق پڑھا ہوا ہے۔ ع بود نابود جہاں یکساں شمر میں نے یہ بھی سنا ہوا ہے ھی الدنیا تقول بملا فیھا حذار حذار من بطشی وفتکی میں یہ بھی جانتا ہوں گو سلیمان زماں بھی ہوگیا تو بھی اے سلطان آخر موت ہے پس اگر تو مجھ کو باعتبار مال اور اولاد کے کم درجہ جانتا ہے تو اس بات کا مجھے کچھ خیال نہیں کیونکہ میرا یقین ہے کہ عنقریب میرا پروردگار تیرے باغ سے اچھا باغ مجھے عنایت کریگا اور تیری شرارت اور سرکشی کیوجہ سے اس تیرے باغ پر آسمان سے کوئی ایسی بلا نازل کریگا جس سے وہ دم کے دم میں ویران سنسان اور چٹیل میدان ہوجائے گا یا اسکا پانی خشک ہوجائے گا تو تو اس کو تلاش اور طلب بھی نہ کرسکے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ راتوں رات سب کچھ اس کا کرا کرایا ضائع ہوگیا اور اس کے تمام پھلوں پر تباہی کا گھیراڈالا گیا پھر تو وہ اپنے مال پر جو اس نے اس باغ کی آبادی اور عمارت پر خرچ کیا تھا دونوں ہاتھ ملنے لگا اور آہ و بکا کئے کہ ہائے میں مارا گیا میرا ستیاناس ہوگیا میں برباد ہوگیا میں جانتا تو اتنا روپیہ اس کی آبادی پر نہ خرچ کرتا آج وہی روپیہ میرے کام آتا۔ ادھر تو اس کے آہ و بکا کا یہ حال ہے اگر باغ کو دیکھتا تھا تو وہ اپنی ٹٹیوں پر گر پڑا تھا یعنی اس کی بیل اور بوٹے سب اوپر نیچے گرے پڑے تھے دیکھ دیکھ کر افسوس کرتا تھا اور کہتا تھا کہ ہائے میری کم بختی میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتا مگر اب کیا ہوتا جب چڑیا چگ گئیں کھتے جب وقت ہی ہاتھ سے نکل گیا تو اب کیا ہوتا۔ چلاتا رہا اور کوئی جماعت بھی اس کی حمایتی نہ ہوئی جو اللہ کے سوا اس کی حمائت کرتی بھلا کون کرسکتا ہے کسی میں طاقت ہی کیا ہے جو کرسکے نہ وہ خود بدلہ لے سکا کہ اللہ سے لڑنے مرنے پر تیار ہوتا یا عوض لیتا ایسے ہی موقع پر معلوم اور ثابت ہوتا ہے کہ اللہ برحق ہی کی حکومت ہے جو تمام دنیا کا مالک اور سب پر قابض ہے اسی کا بدلہ اچھا ہے۔ اور اسی کا انجام بہتر ہے یعنی اسی کے ہورہنے میں سب کچھ مل سکتا ہے مگر یہ لوگ تو دنیا میں آکر ایسے کچھ فریفتہ اور فریب خوردہ ہو رہے ہیں کہ ان کو کچھ نیک وبد سوجھتا ہی نہیں پس تو ان کو سمجھا اور ان کو دنیا کی زندگی اور اس کے حباب ہونے کی مثال بتلا کہ وہ پانی کی طرح ہے جو ہم اوپر سے اتارتے ہیں پھر اس کے ساتھ زمین کی انگوریاں خوب پھل پھول جاتی ہیں ایسی کہ تمام زمین ہری بھری نظر آتی ہے جدھر نظر اٹھائو سبزہ زار فرش زمردین ہورہا ہے اتنے میں پھر وہ دیکھتے کے دیکھتے دم کے دم میں سخت لو لگنے سے چورا چور ہوجاتی ہے کہ ہوائین اس کو اڑاتی ہیں تمام سر سبزی جو نظروں میں تھی ایک دم میں برباد ہوجاتی ہے یہی حال ہے دنیا کی زندگی کا یہی کیفیت ہے انسان کی جو انی کی یہی حال دنیا کی عزت اور آبرو کا چند روز میں جب یہ باتیں حاصل ہوتی ہیں تو انسان جو کہ فرعون بے سامان بن رہا ہے کوئی شخص اعلیٰ ادنیٰ اس کی نظر میں سما نہیں سکتا کوئی حکم شرعی اس کی نظر میں نہیں جچتا۔ کسی ناصح کی نصیحت اس کو اثر نہیں کرسکتی اور اپنی مستی میں ایسا غراتا ہے کہ سمجھانے والوں سے الٹا بگڑ بھتاوت ہے اور دو چار سنا دیتا ہے اور کہتا ہے۔ ؎ نہ کریں میرے لئے حضرت ناصح تکلیف خود طبیعت دل بیتاب کو سمجھا لے گی تھوڑے ہی دنوں میں سب آن بان ٹوٹ کر عزت میں فرق آجا تا ہے جو انی چلی جاتی ہے مال و اسباب برباد ہوجاتا ہے غرض چاروں طرف سے آواز آنے لگتی ہے کہ کل کون تھے آج کیا ہوگئے تم؟ ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم یہ تو بتدریج تنزل کا نقشہ ہے اور فوری تنزل اور بربادی ہو تو پھر تو کچھ پوچھ نہیں بس یہ سمجھو کہ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا جس کا پور نقشہ وباء طاعون میں ہم نے بلکہ کل ملک نے دیکھ لیا۔ مگر نادان لوگ نہیں سمجھتے اور نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز پر قدرت رکھتا ہے گو نشئہ سرور اور جوانی میں نہیں جانتے مگر آخر جب نازک گھڑی سر پر آتی ہے تو خود بخود بے ساختہ منہ سے آہ و بکا نکلتا ہے سچ ہے ؎ موت نے کردیا لاچار وگر نہ انساں تھا وہ کافر کہ خدا کا بھی نہ قائل ہوتا کیونکہ مال اور اولاد خصوصا بیٹے دنیا کی سج سجاوٹ ہیں بھلا جس کو یہ حاصل ہوں کہ مال بھی ہو اور اولاد بھی تو اس کی نظروں میں کون سما سکتا ہے لیکن دانا جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ خواب و خیال ہے اور کچھ بھی نہیں مگر نیک اعمال جو زندگی کے بعد بھی باقی رہنے والے ہیں مثلاً کسی سے نیک سلوک کیا ہو یا کوئی رفاہ عام کے کام جن کا اثر فاعل سے مرنے کے بعد رہتا ہو یا کوئی نیکی کا کام نماز روزہ وغیرہ ان کا بدلہ اور بدلہ کی امید تیرے پروردگار کے نزدیک سب سے بہتر ہے لیکن لوگ نیک اعمال سے تہی دست رہ کر بھی اللہ سے امیدیں باندھتے ہیں یہ درست نہیں بلکہ دھوکہ خوری ہے پس تم مستعد ہوجائو اور اس دن سے خوف کرو جس روز ہم تمام موجودہ چیزوں کو فنا کردیں گے اور پہاڑوں کو مثل بادلوں کے چلائیں گے اور تو زمین کو چٹیل میدان دیکھے گا ایسی کہ لا تری فیھا عوجا ولا امتا (اونچائی نیچائی اس میں نہ ہوگی) اور ہم ان سب کو اپنے حضور لا جمع کریں گے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نہ چھوڑیں گے سب کے سب ایک وسیع میدان میں جمع ہوجائیں گے اور تیرے پروردگار کے سامنے صفیں باندھ کر پیش کئے جائیں گے اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ دیکھا تمہارا خیال کیسا غلط نکلا کہ تم سمجھتے تھے کہ تمہارے معبود اور مصنوعی دوست اہالی مجلس تمہارے غمگسار ہوں گے آج تم تن تنہا ہمارے پاس ایسے آئے ہوجیسے ہم نے تم کو پہلی مرتبہ تنہا پیدا کیا تھا کہ اکیلے بےیارو مددگار دنیا میں تم گئے ویسے ہی یہاں آئے ہو لیکن تمہارے ہال پر افسوس ہے کہ تم نے دنیاوی حادثات سے ہدایت نہ پائی بلکہ تم نے یہ سمجھا کہ ہم تمہارے لئے کوئی وقت نہ ٹھیرائیں گے جس میں تم کو نیک و بد کی جزا و سزا مل سکے کیا تم نے یہ نہ سمجھا کہ کہ نیک و بد میں اگر تمیز نہ کی جاوے۔ تو ظلم پھر کس کا نام ہے اس روز ان کو اس جہالت کی کیفیت معلوم ہوگی جس روز تمام کائنات ان کے سامنے آجاوے گی اور ان کی اعمال کی کتاب ان کے سامنے رکھی جاوے گی پس تو مجرموں کو دیکھے گا کہ اپنی شامت اعمال دیکھ کر اس کتاب کے اندر والی باتوں سے ڈرتے ہونگے کہ آئی موت اور کہیں گے کہ ہائے ہماری کمبختی یہ کیسی کتاب ہے کہ نہ چھوٹا گناہ چھوڑتی ہے نہ بڑا جو کچھ ہم نے کیا ہے یہ سب پر حاوی ہے کیونکہ ان کو بھولے بسرے واقعات سب یاد آجائیں گے اور جو کچھ انہوں نے کیا ہوگا سب اس میں موجود پائے گا اور ساتھ ہی اس کی سزا بھی بھگتیں گے مگر نہ کم نہ زیادہ کیونکہ تیرا پروردگار کسی پر ظلم زیادتی نہیں کیا کرتا یہ اس کی شان سے بعید ہے کہ بے وجہ کسی کو مجرم بنائے۔ یہی وجہ ہے کہ شیطان کو بھی جب تک اس سے شوخی اور گستاخی سرزد نہیں ہوئی مجرم نہیں ٹھیرا یا تجھے معلوم ہے جب ہم نے فرشتوں سے مع ابلیس کے کہا تھا کہ آدم کو سجدہ کرو ان سب نے ویسا ہی مگر ابلیس نے انکار کیا کیونکہ وہ جنوں سے تھا اس کی طبیعت کو شرارت ہی سوجھی پس وہ اپنے پروردگار کے حکم سے بیفرمان ہوا الٹا آدم سے ایسا بگڑا کہ اس کا اور اس کی اولاد کا صریح دشمن بن گیا اور للکار کر مخالفت کا دم بھرنے لگا یہانتک کہ حلفیہ کہہ چکا ہے کہ میں اس کی تمام اولاد کو گمراہ کروں گا اور مجھ سے جہاں تک ہوسکے گا میں ان کو تباہی میں ڈالونگا تو کیا پھر تم اس موذی کو اور اسکی ذریت اور اتباع کو اپنا دوست بناتے ہو اور ان کی باتیں مانتے ہو حالانکہ وہ تمہارے سب بنی آدم کے دشمن ہیں سچ پوچھو تو ایسے ظالموں کو جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں سے یارانہ گانٹھیں یہ بہت ہی برا بدلہ ہے کہ اللہ خالق کون و مکان کو چھوڑ کر اس کی مخلوق سے جو ایک ذرہ بھر بھی قدرت نہیں رکھتے ملتجی ہوتے ہیں اور التماس کرتے ہیں حالانکہ ان کو کسی مخلوق کے بنانے میں شرکت تو کیا اتنا بھی نہیں کہ خبر بھی ہو نہیں (اللہ) نے آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش پر ان کو حاضر کیا تھا کہ آئو دیکھتے رہو نہ خود ان کی پیدائش پر ان کو خبر تک ہوئی اور نہ میں ایسے گمراہ کنندوں اور نہ نیک بندوں سے امداد چاہنے والا نہ میں ان کو قوت بازو بنانے والا ہوں چونکہ یہ گمراہ اور گمراہ کنندہ سب اسی (اللہ) کے بندے اور نمک خوار ہیں اس لئے ابھی سے انہیں مطلع کرنے کو خبر دیتا ہے کہ اس دن سے ڈرو جس روز اللہ کہے گا کہ جن کو تم نے میرے شریک سمجھا تھا ان کو بلائو تو وہ احمق جانیں گے کہ شاید اس میں ہماری کچھ بھلائی ہو پس وہ ان کو بلائیں گے مگر الٹے پھنس جائیں گے ادھر تو گویا اپنے شرک کا اقرار ہوا ادھر یہ حالت ہوگی کہ وہ بزرگ انبیاء اور اولیاء جن سے دنیا میں مددیں مانگتے رہے تھے ان کی بات کا جواب بھی نہ دیں گے اور ہم ان میں ایک بڑی مضبوط آڑ حائل کردیں گے پس ایک طرف وہ اور ایک طرف یہ ایک دوسرے سے الگ نہ وہ ان کو دیکھیں گے نہ یہ ان کو اور مجرم اپنے سامنے جہنم کی آگ دیکھیں گے تو سمجھے گے کہ ہم اس میں گرے کہ گرے چنانچہ ایسا ہی ہوگا کہ اس میں اوندھے کر کے ڈالے جائیں گے اور اس سے بھاگنے کی راہ ان کو نہ ملے گی کیونکر بھاگ سکتے ہیں جب کہ اللہ کی کتاب اور اس کے احکام سے روگردان تھے اور ہم (اللہ) نے اس قرآن میں لوگوں کیلئے ہر طرح کی مثالیں اور دلیلیں بیان کی ہیں تاکہ ان کو ہدایت ہو مگر بقول شخصے ؎ گفتہ گفتہ من شدم بسیار گو از شمایک تن نہ شد اسرار جو بہت ہی کم لوگ ہدایت پر آئے ہیں کیونکہ ایک تو انسان سب مخلوقات سے زیادہ جھگڑنے والا ہے گویا اس کی خلقت اور پیدائش ہی میں جھگڑا داخل ہے علاوہ اس کے بدصحبت کا اثر ان میں سخت سرایت کر رہا ہے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ایسی بین اور واضح ہدایت پا کر بھی گمراہی نہیں چھوڑتے مگر بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو ہدایت آنے کے بعد ایمان لانے اور اپنے پروردگار سے گناہوں کی بخشش مانگنے سے کسی امر کی روک اور انتظاری اس کے سوا نہیں کہ پہلے لوگوں کی سی حالت ان پر بھی آوے یعنی بالکل تباہ ہوجائیں یا سامنے سے ہمارا عذاب ان پر آوے جیسا فرعون پر قحط بیماری وغیرہ کا عذاب آیا تھا یعنی ان کی حالت یہ کہہ رہی ہے کہ جب تک تباہ نہ ہوں گے ایمان نہ لاویں گے اصل یہ ہے کہ یہ لوگ نبوت کی ماہیت اور غرض و غائت سے بے خبر ہیں اسی لئے بسا اوقات نبیوں سے ایسے ایسے سوال کرتے ہیں جو ان کی قدرت میں نہیں ہوتے کیونکہ وہ ہمارے مامور بندے ہوتے ہیں اور ہم (اللہ) بھی رسولوں کو صرف خوشخبری دینے اور گناہوں پر عذاب سے ڈرانے کو بھیجا کرتے ہیں چنانچہ وہ اپنا یہ فرض منصبی بڑی جانفشانی سے ادا کرتے رہتے ہیں اور کافر لوگ جھوٹ کے ساتھ یعنی باطل امید پیش کر کے نبیوں سے جھگڑے کیا کرتے ہیں تاکہ کسی طرح اس جھوٹ کے ساتھ سچ کو دبا دیں اور میرے (اللہ) کے احکام کو جو انبیاء کے ذریعہ سے ان کو پہنچایا کرتے ہیں اور برے کاموں پر ڈرائے جانے کو محض ایک ہنسی مخول سمجھتے ہیں بھلا اس سے زیادہ ظلم کیا ہوگا اور اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو اپنے پروردگار کے حکموں سے نصیحت کیا جاوے یعنی اس کو کوئی شخص اس کے مالک خالق رازق اور پروردگار کے حکم سنا دے پھر بھی وہ نالائق ان احکام اللہ تعالیٰ سے رو گردان ہوا اور اپنے اعمال کو جو کر گذرا ہے بھول جائے ایسے نالائق جاہل کا انجام بجز اس کے کیا ہونا چاہئے کہ الٹا کر کے جہنم میں ڈالا جائے چنانچہ ہم نے بھی ان کیلئے وہی تمہید کر رکھی ہے کہ ان کے دلوں پر سمجھنے سے پردے ڈال رکھے ہیں اور ان کے کانوں میں ایک قسم کی بندش پیدا کردی ہے جو سب کچھ انکی شامت اعمال کا نتیجہ ہے اور اسی کا اثر ہے کہ اگر تو ان شریروں کو جو محض عناد سے مقابلہ کرتے ہیں ہدایت کی طرف بلاوے تو کبھی بھی ہدایت نہیں پاویں گے لیکن باوجود ان شرارتوں اور گستاخیوں کے ان کو ہر طرح سے امن و آسائش کیوں دی جاتی ہے؟ اس لئے کہ تیرا پروردگار بڑا ہی بخشنہار مہربان ہے اس کی رحمت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی مخلوقات میں سے ہر ایک نیک و بد کو پالتا پوستا ہے ورنہ بھلا اگر وہ انکے اعمال قبیحہ پر مواخذہ کرتا تو کون اس کو روک سکتا؟ فوراً ان پر عذاب نازل کردیتا بلکہ بات یہ ہے کہ ان کیلئے ایک میعاد مقرر ہے اس وقت ان کی ہلاکت کے اسباب آپ سے آپ پیدا ہو کر ان کو تباہ کردیں گے اس کے آنے سے پہلے بھی ان کو کہیں پناہ کی جگہ ہرگز نہ ملے گی تو آنے پر کہاں پھر تو سب کے سب اپنی اپنی جگہ پر پکڑے جائیں گے ان عادیوں اور ثمودیوں وغیرہ کی بستیوں یعنی ان میں رہنے والوں نے جب ظلم و ستم کئے اور الٰہی احکام کی ہتک حرمت کی تو ہم (اللہ) نے ان سب کو تباہ کردیا اور اس ہلاکت سے پہلے ہم نے ان کے لئے بھی ایک میعاد مقرر کر رکھی تھی یہ لوگ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ اللہ کی وحدانیت میں اگر کسی مخلوق کو کچھ دخل ہوتا تو حضرات انبیاء علیہم السلام کو ہوتا مگر وہ بھی وہاں ایسے تن بتقدیر ہیں کہ ” العظمۃ للہ“ ہی کی آواز آتی ہے