سورة الحجر - آیت 1

الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَقُرْآنٍ مُّبِينٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

الر۔ یہ آیتیں ہیں الکتاب کی اور قرآن کی جو (اپنی ساری باتوں میں) واضح اور روشن ہے۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔18) میں ہوں اللہ سب کچھ دیکھتا یہ باتیں جو اس سورت میں تمہیں سنائی جاتی ہیں آسمانی کتاب اور قرآن مبین یعنی احکام الٰہی کو اظہار کرنے والے کی آیتیں اور احکام ہیں سب سے پہلا حکم اس کتاب کا یہ ہے کہ اللہ پر کامل ایمان رکھو ورنہ پھر خیر نہیں یہی وجہ ہے کہ مرنے کے بعد بعض دفعہ کافر چاہیں گے کہ کاش ہم مسلمان اللہ کے فرمانبردار ہوتے لیکن اس وقت دنیا کے عیش و عشرت میں مست ہیں پس ان کو اسی حال پر چھوڑ دے کہ چند روز کھائیں اور مزے اڑائیں اور دنیا کی امیدوں اور خواہشوں میں بھولے رہیں پھر اس کا انجام آخر کار جان لیں گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ ایسے ہو گذرے ہیں آخر ان کا انجام ہلاکت ہوا جس کسی بستی یا قوم کو ہم (اللہ) نے ہلاک اور تباہ کیا اس کے لئے پہلے سے وقت مقرر تھا اس لئے کہ کوئی قوم اپنے وقت سے نہ آگے ہوسکتی ہے نہ پیچھے مگر ان مکہ کے مشرکوں کو اتنی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ تیرے حالات پر غور کریں اور نتیجہ پاویں کہ ایسا ذی عقل اور صاحب اثر ہم سے کیوں مخالف ہے نادان بجائے غور و فکر کرنے کے الٹے کجروی کرتے ہیں اور رسول اللہ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے آدمی جس پر قرآن نازل ہوا ہے یعنی جو اپنے گمان میں سمجھتا ہے کہ مجھ پر قرآن نازل ہوا ہے کچھ شک نہیں کہ تو دیوانہ ہے اس سے بڑھ کر دیوانگی کیا ہوگی کہ تمام جہان کا خلاف کرتا ہے اگر اپنے دعوے میں تو سچا ہے تو ہمارے ہلاک کرنے کو فرشتے کیوں نہیں لے آتا حالانکہ ہم (اللہ) فرشتوں کو ضروری فیصلہ کے لئے اتارا کرتے ہیں جن کے نازل ہونے پر کافروں کو مہلت نہیں ملا کرتی تو ابھی ان کا وقت نہیں آیا رہی یہ بات کہ اگر یہ لوگ نہ مانیں گے تو قرآن کی اشاعت اور حفاظت نہ ہوگی بالکل غلط ہے کیونکہ ہم ہی نے قرآن کو لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں مجال نہیں کہ کوئی ذرہ بھر بھی اس میں ہیر و پھیر کرسکے اور اسی طرح ہم نے تجھ سے پہلے لوگوں کو بھی رسول بھیجے تھے اور وہ ان کو بدستور سمجھاتے رہے مگر ان نالائقوں نے ان کی ایک نہ سنی جب کبھی ان کے پاس رسول آتا اس سے ہنسی مخول کرتے اسی طرح یہ ہنسی مخول کرنے والے بدکار مجرموں کے دلوں میں جب انکار ہی پر اصرار کرتے ہیں انکار ہی داخل کرتے رہتے ہیں اسی لئے ایسے لوگ اس قرآن پر ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ اپنے کئے کا بدلہ نہ پائیں اور ان سے پہلے لوگوں کے واقعات گذر چکے ہیں جس طرح وہ اپنی عادت قبیحہ سے ہلاک ہوئے اسی طرح ان کی بھی گت ہوگی۔ یہ تو فرشتوں کی درخواست کرتے ہیں ہم اگر ان پر آسمان سے دروازہ کھول دیں پھر یہ سب کے سامنے دن دھاڑے اس دروازہ میں سے آسمان پر چڑھ جائیں تو بھی نہ مانیں گے بلکہ یہی کہیں گے کہ صرف ہماری آنکھوں میں کسی طرح کا نشہ آگیا اور ہم بے ہوش ہو رہے ہیں کہ اس نشہ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہم اوپر چڑھے جاتے ہیں ورنہ حقیقت میں کوئی شے نہیں بلکہ ہمیں جادو کیا گیا ہے کہ ہوش ہی سنبھالنے نہیں دیتا یہ نادان اگر ہماری قدرت پر غور کریں تو ان کو کسی دلیل اور معجزہ کی حاجت نہ ہو دیکھیں کہ ہم نے آسمانوں میں چاند سورج وغیرہ (سیاروں کے لئے) منزلیں بنائی ہیں جن میں دو گھومتے گھومتے انسان کی نظروں میں دور نزدیک نظر آتے ہیں اور ہم نے دیکھنے والوں کے لئے آسمان کو مزین کیا وہ دیکھ رہے ہیں کہ کیسا سجا سجایا ہے کہ گویا رنگین چھپٹ ہے اور ہم نے اس آسمان کو ہر شیطان مردود سے محفوظ بنایا کہ وہ اور اس کی جماعت کا وہاں کوئی تصرف نہیں ہوسکتا ہاں دور سے جو شیطان چوری چوری بات سنے تو فوراً چمکتا ہوا شعلہ اسے جا دباتا ہے (وحفظنھا من کل شیطن رجیم) یہ مضمون اللہ تعالیٰ نے کئی ایک آیتوں میں بیان فرمایا ہے۔ سورۃ صافات میں فرمایا ہے : انا زینا السمآء الدنیا بزینۃ الکواکب وحفظا من کل شیطن مارد لا یسمعون الی الملاء الاعلی ویقذفون من کل جانب دحورا ولھم عذاب واصب الا من خطف الخطفۃ فاتبعہ شہاب ثاقب (صافات ع ١) ہم نے پہلے آسمان کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا اور ہر شیطان سرکش سے محفوظ کیا وہ شیاطین اعلیٰ جماعت کی بات نہیں سن سکتے اور ہر طرف سے دھتکارے جاتے ہیں اور ان کیلئے دائمی عذاب ہے جو کوئی ان سے کوئی بات ادھر ادھر سے کچھ سنے تو چمکتا ہوا شعلہ اس کے پیچھے پڑجاتا ہے۔ وزینا السمآء الدنیاء بمصابیح وحفظا ذلک تقدیر العزیز العلم۔ (حم السجدہ ع ٢) سورۃ حم السجدہ میں فرمایا ہے ” ہم نے پہلے آسمان کو ستاروں سے مزین اور محفوظ بنایا یہ اندازہ ایک غالب علم والے کا ہے۔ ولقد زینا السمآء الدنیا بمصابیح وجعلنھا رجوما للشیطین واعتدنا لھم عذاب السعیر (ملک ع ١) سورۃ ملک میں فرمایا ” ہم نے پہلے آسمان کو ستاروں کے ساتھ سجایا اور ان کو شیاطین کے لئے رجوم بنایا اور ان کے لئے جہنم کا عذاب تیار کیا ہے۔ ان سب آیتوں کا مطلب ایک ہی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” ہم نے آسمانوں کو پیدا کیا اور ستاروں سے ان کو سجایا۔ کوئی شیطان اوپر کی باتیں نہیں سن سکتا۔ اگر کوئی زیادہ ہی کوشش سے بعجلت و بسرعت سننا چاہے تو ستاروں سے ان کی سرکوبی کی جاتی ہے جو اسی کام کے لئے بنائے گئے ہیں یہ ہے مختصر مطلب ان آیات کا۔ لیکن اس میں کئی طرح سے بحث ہے۔ اول یہ کہ شیاطین کس طرح آسمانوں کی یا ملاء اعلیٰ کی باتیں سنتے ہیں۔ دوئم یہ کہ ستاروں کو ان کی سرکوبی کے لئے رجوم بنانے کے کیا معنے ہیں۔ سوم یہ کہ شہاب مبین یا شہاب ثاقب کیا ہے آیا یہ وہی ہے جو رات کو تارا ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے یا کوئی اور چیز ہے۔ امر اول کی بابت ہم مقدمہ ابن خلدون سے کہانت (یعنی جوگی پن) کا مضمون نقل کرتے ہیں جس میں علامہ موصوف نے نبوت اور کہانت اور خواب وغیرہ پر بحث کی ہے نبوت اور خواب کا مضمون تو ہم حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خواب والے حاشیہ میں نقل کر آئے ہیں اس جگہ صرف کہانت سے ہمارا مطلب ہوگا جس سے ہمارے ناظرین کو آیت کے معنے سمجھنے میں بہت سی مدد ملے گی وھو ھذا واما الکھانۃ فھی ایضا من خواص النفس الانسانیۃ وذلک انہ قد تقدم لنا فی جمیع مامر ان للنفس الانسانیۃ استعداد للانسلاخ من البشریۃ الی الروحانی التی فوقھا وانہ یحصل من ذلک لمحۃ للبشر فی صنف الانبیاء بما فطروا علیہ من ذلک وتقرر انہ یحصل لھم من غیر اکتساب ولا استعانۃ بشئ من المدارک ولا من التصورات ولا من الافعال البدنیۃ کلاما او حرکۃ ولا بامر من الامر وانما ھو انسلاخ من البشریۃ الی الملکیۃ بالفطرۃ فی لحظۃ اقرب من لمح البصر واذا کان کذلک وذلک الاستعداد موجود فی الطبیعۃ البشریۃ فیعطی التقسیم العقلی ان ھنا صنفا اخر من البشر ناقصا عن رتبۃ الصنف الاول نقصان الضد عن ضدہ الکامل لان عدم الاستعانۃ فی ذلک الادراک ضد الاستعانۃ فیہ وشتان ما بینھما فاذا اعطے تقسیم الوجود ان ھنا صنفا اخر من البشر مفطوراعلی ان تتحرک قوتہ العقلیۃ حرکتہا الفکریۃ بالارادۃ عند ما یبعثھا النزوع لذلک وھی ناقصۃ عنہ بالجبلۃ فیکون لھا بالجبلۃ عندما یعوقہا العجز عن ذلک تشبث بامور جزئیۃ محسو سۃ او متخلیۃ کالاجسام الشفافۃ وعظام الحیوانات وسجع الکلام وما سخ من طیر او حیوان فیستدیم ذلک الاحساس او التخیل مستعینا بہ فی ذلک الانسلاخ الذی یقصدہ ویکون کالمشیع لہ وھذہ القوۃ التی فیھم مبدا لذلک الادراک ھی الکھانۃ ولکون ھذہ النفوس مقطورۃ علی النقص والقصور عن الکمال کان ادراکھا فی الجزئیات اکثر من الکلیات ولذلک تکون المخیلۃ فیھم فی غایۃ القوۃ لانہا الۃ الجزئیات فتنفذ فیھا نفوذا تاما فی نوم او یقظۃ وتکون عندھا حاضرۃ عقیدۃ تحضرھا المخیلۃ وتکون لھا کالمراۃ تنظر فیھا دائما ولا یقوی الکاھن علی الکمال فی ادراک المعقولات لان وحیہ من وحی الشیطان وارفع احوال ھذا لصنف ان یستعین بالکلام الذی فیہ السجع والموازنۃ یشتغل بہ عن الحواس ویقوی بعض الشے علی ذلک الاتصال الناقص فیھبس فی قلبہ عن تلک الحرکۃ والذی یشیعھا من ذلک الاجنبی مایقذفہ علی لسانہ فربما صدق و وافق الحق وربما کذب لانہ یتمم نقصہ بامر اجنبی عن ذاتہ المدرکۃ ومبائن لھا غیر ملایم فیعرض لہ الصدق والکذب جمیعا ولا یکون موثوقابہ وربما یفزع الی الظنون والتخمینات حرصا علی الظفر بالادراک یزعمہ وتمویھا علی السائلین واصحاب ھذا السجع ھم المخصوصون باسم الکھان لانھم ارفع سائر اصنافھم وقد قال (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی مثلہ ھذا من سجع الکھان مختصابھم بمقتضی الاضافۃ وقد قال لابن صیام حین سالہ کاشفا عن حالہ بالاختیار کیف یا تیک ھذا الامر قال یاتینی صادق و کاذب فقال خلط علیک الامر یعنی ان النبوۃ خاصتہا الصدق فلا یعتریھا الکذب مجال لانھا اتصال من ذات النبی بالملاء الاعلی من غیر مشیع ولا استعانۃ باجنبی والکھانۃ لما احتاج صاحبہا بسبب عجزہ الی الاستعانۃ بالتصورات الاجنبیۃ کانت داخلۃ فی ادراکہ والتبست بالادراک الذی توجہ فصار مختلطابھم وطرقہ الکذب من ھذہ الجھۃ فامتنع ان تکون نبوۃ وانما قلنا ان ارفع مراتب الکھانۃ حالۃ السجع لان معنی السجع اخف من سائر المغیبات من المرئیات والمسموعات وتدل خفۃ المعنی علی قرب ذلک الاتصال والادراک والبعد فیہ عن العجز بعض الشے وقد زعم بعض الناس ان ھذہ الکھانۃ قد انقطعت منذ زمن النبوۃ بما وقع من شان رجم الشیاطین بالشہب بین یدی البعثۃ وان ذلک کان لمنعھم من خبر السمآء کما وقع فی القران والکھان انما یتعرفون اخبار السماء من الشیاطین فبطلت الکھانۃ من یومئذ ولا یقوم من ذلک دلیل لان علوم الکھان کما تکون من الشیاطین تکون من نفوسھم ایضا کما قرر ناہ وایضا فالایۃ انما دلت علی منع الشیاطین من نوع و احد من اخبار السماء وھو مایتعلق بخبر البعثۃ ولم یمنعوا مماسوی ذلک وایضا فانما کان ذلک الانقطاع بین یدی النبوۃ فقط ولعلھا عادت بعد ذلک الی ماکانت علیہ وھذا ھو الظاھر لان ھذہ المدارک کلھا تحمد فی زمن النبوۃ کما تخمد الکواکب والسرج عند وجود الشمس لان النبوۃ ھی النور الاعظم الذی یخفی معہ کل نور ویذھب وقدزعم بعض الحکماء انھا انما توجد بین یدی النبوۃ ثم تنقطع وھکذا مع کل نبوۃ وقعت لان وجود النبوۃ لابدلہ من وضع فلکی یقتضیہ وفی تمام ذلک الوضع تمام تلک النبوۃ التی دل علیھا ونقص ذلک الوضع عن التمام یقتضی وجود طبیعۃ من ذلک النوع الذی یقتضیہ ناقصۃ وھو معنی الکاھن علی ماقررناہ فقبل ان یتم ذلک الوضع الکامل یقع الوضع الناقص ویقتضی وجود الکاھن اما واحدا او متعددا فاذا تم ذلک الوضع تم وجود النبی بکمالہ وانقضت الاوضاع الدالۃ علی مثل تلک الطبیعۃ فلا یوجد منہا شئ بعد وھذا بناء علی ان بعض الوضع الفلکی یقتضی بعض اثرہ وھو غیر مسلم فلعل الوضع انما یقتضی ذلک الاثر بھیئۃ الخاصۃ ولو نقص بعض اجزائھا فلا یقتضی شیئا الا انہ یقتضی ذلک الاثر ناقصا کما قالوہ ثم ان ھولاء الکھان اذا عاصروازمن النبوۃ فانھم عارفون بصدق النبی ودلالۃ معجزتہ لان لھم بعض الوجدان من امر النبوۃ کما لکل انسان من امر الیوم و معقولیۃ تلک النسبۃ موجودۃ للکاھن باشد مما للنائم ولا یصدھم عن ذلک ویوقعھم فی التکذیب الا قوۃ المطامع فی انھا نبوۃ لھم فیقعون فی العناد کما وقع لامیۃ ابن ابی الصلت فانہ کان یطمع ان یتنباء وکذا وقع لان صیاد ولمسیلمۃ وغیرھم فاذا غلب الایمان وانقطعت تلک الامانی امنوا احسن ایمان کما وقع الطلیحۃ الاسدی وسواد بن قارب وکان لھما فی الفتوحات الاسلامیۃ من الاثار الشاھدۃ بحسن الایمان“ (صفحہ ٨٤ تا ٨٦) خلاصہ : تحریر مذکورہ بالا کا یہ ہے کہ انسانی قوی میں بعض قوی خلقی یا کبھی ایسی بھی ہیں کہ امور غیر محسوسہ بالحواس الظاہرہ کو دریافت کرسکتی ہیں۔ یہی وہ قوی ہیں جن کی بابت اللہ فرماتا ہے الامن استرق السمع ای الکلام المسموع ای الذی من شانہ ان یسمع فاتبعہ شہاب مبین یعنی جب ان قوی والے جن یا انسان امور غیر مدرکہ کی طرف توجہ کرتے ہیں کہ دریافت کر کے بضم ضمیمہ لوگوں میں پہلا دین تو آسمان کے ستارے ان کی سرکوبی کو شہاب ثاقب کا کام دیتے ہیں یعنی ان کی تاثیرات شیاطین کو مطلب براری میں مزاحم ہوتی ہیں ان کی قوی ذکیہ اور آلات رصدیہ کچھ کام نہیں آتے اگر کوئی کلمہ یا مضمون ان کے ذہن با مداد قوی ذکیہ اور آلات رصدیہ بھی دریافت کرلیتے ہیں تو ستاروں کی تاثیر سے ان کو اس میں خبط ہوجاتا ہے غرضکہ وہ صحیح حالات اور اصلی واقعات دریافت نہیں کرسکتے۔ اس مضمون کی تصدیق ہم عموماً رمالوں اور جوگیوں میں پاتے ہیں۔ اس تقریر سے ظاہر ہے کہ رجوم اور شہاب مبین یا شہاب ثاقب یہ شعلے نہیں ہیں جو آسمان میں بسبب حرارت و بخارات کے جلتے ہوئے نظر آتے ہیں کیونکہ یہ تو اسباب طبیعیہ سے جل جاتے ہیں اور اگست و ستمبر کے مہینوں میں جو برسات اور متصل برسات کا موسم ہے۔ بہ نسبت دوسرے دنوں کے بکثرت گرتے ہیں ان کی تشبیہ کی وجہ سے اللہ نے آسمانی ستاروں کو جو منجمین اور شیاطین کے مزاحم حال ہوتے ہیں شہاب کہا ہے اس امر کا ثبوت خود قرآن شریف میں موجود ہے کیونکہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے رجوم فرمایا ہے دوسرے موقعہ پر اتبعہ شہاب ثاقب کہا ہے جو صاف دلالت کرتا ہے کہ رجوم اور شہاب ثاقب کا مصداق ایک ہی ہے اور سورت جن میں اس سے بھی صاف مضمون ہے۔ وانا لمسنا السمآء فوجدنہا ملئت حرسا شدیدا وشہبا وانا کنا نقعد منہا مقاعد للسمع فمن یستمع الان یجدلہ شہابا رسدا (جن ع ١) جن کہتے ہیں ہم نے آسمان کو چھوا تو اس کو چوکیداروں اور شعلوں سے سخت مضبوط پایا اور ہم اس سے پہلے اس کے بعض مقامات پر سننے کو بیٹھا کرتے تھے لیکن اب جو سننا چاہے تو دیکھتا ہے کہ ایک آگ کا شعلہ سا اس کی محافظت کر رہا ہے۔ پس صاف مضمون ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے شہاب فرمایا ہے وہ آسمان سے قریب بلکہ متصل ہیں اور یہ تو بدیہی ہے کہ جو شعلے جوِّ سما میں پھرتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ تو زمین سے بہت ہی قریب ہیں میل دو میل نہایت تین چار میل کے فاصلہ تک ہوتے ہیں اور یہ وہ ستارے بھی نہیں جن کو آسمان پر مرکوز مانا جاتا ہے بلکہ کوئی شخص اگست اور ستمبر کے مہینوں میں آسمان کی طرف بغور دیکھے تو ایک آتش بازی کا سماں نظر آتا ہے جو ناگہاں ایک جگہ سے فوراً پیدا ہو کر چند گز کے فاصلے تک جا کر بجھ جاتا ہے۔ البتہ عام لوگ ان کو رجوم سمجھتے ہیں مگر قرآن شریف رجوم اور شہاب ان ستاروں کو کہتا ہے جو آسمان میں گڑے ہوئے ہیں ان نیازک (شعلوں) کو نہیں کہتا۔ رہا یہ سوال کہ شیاطین کی روک ہمیشہ سے ہے جیسا کہ قرآن شریف کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے یا خاص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے زمانہ سے جیسا کہ سورۃ جن کی آیت مرقومہ سے مفہوم ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیشہ سے بندش ہے مگر ہر نبی کے زمانہ نبوت میں خاص اہتمام بندش کا کیا جاتا ہے چنانچہ سورت جن کی ایک آیت اس مضمون کو بوضاحت بتلاتی ہے جہاں ارشاد ہے۔ فَلاَ یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا۔ اِلاَّ مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا۔ لِیَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْ ارِسٰلٰتَ رَبِّھِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَیْھِمْ وَ اَحْصٰی کُلَّ شَیْیئٍعَدَدًا۔ (الجن ع ٣) اللہ غیب کی باتیں کسی کو نہیں بتلایا کرتا ہاں رسولوں کو جنہیں اس نے برگزیدہ کیا ہوتا ہے بتلاتا ہے اور ان کے آگے اور پیچھے بطور حفاظت (فرشتوں کو) نگہبان بھیجتا ہے تاکہ یہ قطعی طور پر اس امر کا اظہار کرے کہ رسولوں نے اپنے پروردگار کی رسالت پہنچا دی ہے اور جو کچھ ان رسولوں کے پاس کے واقعات ہیں ان سب کو اللہ نے گھیرا ہوا ہے اور ہر چیز کو گن رکھا ہے۔ اس مضمون کو ذرا تفصیل سے سمجھنے کے لئے بہت کچھ ریاضت کی ضرورت ہے اگر ریاضت نہ ہوسکے تو احیاء العلوم کا ربع ثالث مطالعہ کرنا چاہئے۔ ہمارے معزز معاصر سر سید احمد خاں مرحوم نے بھی اس آیت پر توجہ فرمائی ہے خلاصہ ان کی توجہ کا یہ ہے کہ ستاروں کو رجوم بنانے سے یہ مراد ہے کہ اللہ نے ان کو منجموں کے لئے اٹکل پچو باتیں کہنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ یعنی منجمین ستاروں کے نام سے رجما بالغیب پیش گوئیاں کردیتے ہیں۔ جن میں سے کوئی صحیح ہوتی ہے اور کوئی غلط یہ بھی فرماتے ہیں کہ شیاطین نہ تو کوئی بات سنتے ہیں اور نہ سن سکتے ہیں الا من خطف الخطفۃ یا من استرق السمع جو فرمایا ہے جس سے بظاہر شیاطین کا ملاء اعلیٰ سے کلام کا کسی قدر سننا مفہوم ہے اس کی مثال میں آپ فرماتے ہیں اس کو یوں سمجھنا چاہئے کہ مثلاً کسی کی نسبت لوگ کہیں کہ فلاں شخص بادشاہ کے دربار کی باتیں سن سن کر لوگوں کو بتا دیا کرتا ہے اس کے جواب میں کہا جاوے کہ نہیں وہ بادشاہ کے دربار تک کب پہنچ سکتا ہے اور بادشاہ کے دربار کی باتیں کب سن سکتا ہے یونہی ادھر ادھر کوئی بات اڑا لیتا ہے یا سن لیتا ہے تو اس سے ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ شخص درحقیقت دربار کی باتیں سن لیتا ہے اسی طرح ان دونوں آیتوں میں الفاظ خطف الخطفۃ اور استرق السمع کے واقع ہوئے ہیں جو کسی طرح واقعی سننے پر دلالت نہیں کرتے (جلد پنجم ص ١٦٠) اور شھاب مبین کے معنی کرتے ہیں کہ شیاطین الانس کے اعتقاد کی ناکامی کو ان کے کسی شگون بد سے تعبیر کرنے کے لئے اللہ نے فرمایا کہ فاتبعہ شہاب ثاقب جو نہایت فصیح استعارہ ہے منجمین کے وبال کے بیان کرنے کو اور جس کا مقصود یہ ہے کہ فاتبعھم الشوم والخسران والحرمان فیما املوا (صفحہ ١٦٣) مختصر یہ کہ سید صاحب کے نزدیک ان آیتوں میں اس واقعہ کی اصلیت کا ذکر نہیں بلکہ نجومیوں اور رمالوں کی محض نامرادی اور ناکامی سے استعارہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ استعارہ تو کسی مشہور وصف میں ہوتا ہے۔ جیسے کسی بہادر کو شیر یا نادان کو گدھا اور سخی کو حاتم اور خوبرو کو یوسف کہا جائے کیونکہ شیر بہادری میں اور گدھا حماقت میں اور حاتم سخاوت میں اور یوسف خوبروئی میں شہرہ آفاق ہیں استعارہ کی بنا وصف کی شہرت پر ہے یہ نہ ہوگا کہ بوجھ اٹھانے میں گدھے کے ساتھ اور قحط کا انتظام کرنے میں یوسف کے ساتھ تشبیہ دی جائے کیونکہ یہ دونوں وصف ان دونوں کے ایسے نہیں کہ ذہن ان سے تبادر کر کے اصل مطلب پر پہنچ سکے پس جب یہ اصول صحیح ہے تو شہاب ثاقب کو محض ناکامی سے استعارہ قرار دینا کیونکر صحیح ہوسکتا ہے۔ جب تک کہ کوئی شہاب ثاقب کی طرح چمکتا ہوا نور ان کو دریافت کرنے میں مانع نہ ہو۔ کیونکہ شہاب ثاقب میں ناکامی کا وصف اس درجہ مشہور نہیں جیسے شیر کی بہادری اور گدھے کی حماقت باقی ناظرین کی رائے پر چھوڑا جاتا ہے۔ منہ)