وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
میں اپنے نفس کی پاکی کا دعوی نہیں کرتی، آدمی کا نفس تو برائی کے لئیے بڑا ہی ابھارنے والا ہے (اس کے غلبہ سے بچنا آسان نہیں) مگر ہاں اسی حال میں کہ میرا پروردگار رحم کرے، بلاشبہ میرا پروردگار بڑا ہی بخشنے والا بڑا ہی رحم کرنے والا ہے۔
(53۔68) اور میں تو اپنے نفس کو پاک نہیں کہہ سکتا کیونکہ نفس انسانی تو ہر آن برائیوں ہی پر ابھارتا ہے مگر جس قدر اور جتنا وقت اللہ کا رحم شامل حال ہو بے شک میرا پروردگار بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے جو لوگ اس کے ہو رہتے ہیں وہ ان کو بھولتا نہیں بلکہ اپنی طرف راہ دیتا ہے اتنی گفتگو کرتے کراتے قید خانہ میں دیر لگی اور قاصد واپس نہ پہنچا تو بادشاہ نے کہا جلدی باعزاز و اکرام اسے میرے پاس لائو کہ میں اسے اپنا مخلص مقرب بنائوں پس جب یوسف آیا اور بادشاہ سے اس نے گفتگو کی تو بادشاہ نے اس کی لیاقت و دیانت کا اندازہ کرلیا اور کہا کہ پیچھے جو گذرا سو گذرا اب تو ہمارے نزدیک معزز معتبر ہے مناسب ہے کہ کوئی سرکاری خدمت قبول کرتا کہ تیری ذات سے لوگوں کو فائدہ پہنچے یوسف ( علیہ السلام) نے اس کے جواب میں کہا کہ حضور اگر مجھ پر اعتبار کرتے ہیں تو مجھے زمین کی پیداوار پر فنانشل کمشنر مقرر کر دیجئے کہ میں پیداوار کا مناسب انتظام کرسکوں تاکہ آئندہ کی تکلیف سے مخلوق اللہ کو کسی قدر آرام ملے کیونکہ میں اس کام کی حفاظت بھی کرسکتا ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں اصل میں تو یہ سب کام ہمارا ہی تھا اور ہم (اللہ) ہی کر رہے تھے۔ اسی طرح جیسا کہ یوسف ( علیہ السلام) کو دربار شاہی میں ہم نے پہنچایا تمام زمین مصر پر اس کو اختیار دیا اور عام طور پر اس کی ہر دلعزیزی لوگوں کے دلوں میں ڈالی جہاں چاہتا ڈیرہ لگا لیتا غرض کل ملک جو بادشاہ کے زیر فرمان تھا یوسف کے زیر قلم ہوگیا ہم اپنی رحمت خاصہ سے جس کو چاہیں حصہ دیتے ہیں کوئی ہمارا مزاحم نہیں ہوسکتا اور ہم بھلے آدمیوں کا بدلہ ضائع نہیں کیا کرتے یہ تو دنیاوی احسان ہے اور آخرت کا عوض مومنوں اور متقیوں کے لئے بہت ہی عمدہ ہے حاصل کلام یوسف ( علیہ السلام) نے اپنے کام کا پورا انتظام کرلیا اور حسب تعبیر خواب قحط سالی بھی شروع ہوگئی یوسف ( علیہ السلام) نے تمام اطراف و جوانب میں منادی کرا دی کہ سرکاری مودی خانہ سے ارزاں قیمت پر غلہ ملے گا جس نے خریدنا ہو لے جایا کرے چنانچہ دور دراز اطراف سے جوق در جوق لوگ حتی کہ یوسف ( علیہ السلام) کے بھائی بھی قحط زدہ ہو کر اس کے پاس غلہ لینے کو آئے اس نے تو انہیں پہچان لا مگر انہوں نے اسے نہ پہچانا ان کو کیا خبر تھی کہ پردہ غیب سے کیا ظہور میں آیا ہوا ہے ما ورچہ خیالیم و فلک ورچہ خیال کاریکہ اللہ کند فلک راچہ مجال خیر یوسف ( علیہ السلام) نے بھی ان کو کچھ نہ جتلایا اجنبی طور پر صرف اتنا دریافت کیا کہ تم کون ہو کس کی اولاد ہو تمہارے باپ کا کیا نام ہے زندہ ہے یا مر گیا ہے تمہارا کوئی بھائی بھی ہے انہوں نے سب باتوں کے جواب دئیے ایک بھائی کے ہونے کا اقرار بھی کیا اور اس کے حصہ کا غلہ بھی طلب کیا مگر اس کا حصہ نہ ملا کیونکہ غائبوں کا حصہ ملنے کا دستور نہ تھا اور جب یوسف ( علیہ السلام) نے ان کا سامان بندھوانے کا حکم دیا تو اتنا ان سے کہا کہ دوسری دفعہ آئو تو اپنے بھائی کو بھی باپ کے پاس سے لیتے آنا تم دیکھتے ہو کہ میں ہر ایک آدمی کو پورا گذارہ ماپ کردیتا ہوں اور میں عمدہ طرح سے مہمانوں کی مہمان نوازی کرتا ہوں مگر شاہی قانون کے خلاف نہیں کرسکتا جب تک تم اپنے بھائی کو نہ لائو اس کا حصہ میں تم کو نہیں دے سکتا بہتر ہے کہ اس کو تم لے آئو تاکہ اس کے گذارہ کی صورت بھی ہوجائے اور اگر تم میرے کہنے پر بھی اس کو نہ لائے تو یاد رکھنا پھر تم کو غلہ نہ ملے گا بلکہ میں تم سے سخت ناراض ہوں گا کیونکہ اس کے نہ آنے سے تمہارا کذب ثابت ہوگا جس سے تم پر دروغ گوئی کا الزام لگایا جاوے گا پھر تم نے میرے نزدیک بھی نہ آنا یوسف کے بھائی بولے کہ ہم جاتے ہی والد کو اس کے بھے جن کے متعلق نرم کریں گے اور ہم ایسے کام کرسکتے ہیں اس گفتگو کے بعد یوسف ( علیہ السلام) نے اپنے ماتحتوں سے خفیہ کہا کہ ان کی بوریوں میں غلہ ڈالتے ہوئے ان کی قیمت بھی چھپا دو تاکہ وہ گھر پہنچ کر اس قیمت کو پہچانیں تو شائد وہ واپس پھر آویں مبادا قیمت میسر نہ ہونے کی وجہ سے نہ آسکیں اس خیال میں رہیں کہ بغیر قیمت تو غلہ ملتا نہیں خیر اللہ اللہ کر کے وہ مصر سے رخصت ہوئے پس جب اپنے باپ یعقوب (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو آتے ہی اپنا کل ماجرا بیان کرتے ہوئے بولے؟ بابا ! ہم کیا کریں آئندہ کو ہمیں ایک حکم کی عدم تعمیل پر سرکار سے غلہ ملنے کی ممانعت کردی گئی ہے اس کے حکم کی تعمیل تیرے ہاتھ میں ہے عزیز مصر نے ہمارے بھائی کو طلب کیا ہے پس تو ہمارے بھائی بنیامین کو ہمارے ساتھ مصر بھیج کہ ہم غلہ لائیں اور ہم اس کے محافظ بھی ہوں گے یعقوب (علیہ السلام) نے کہا جیسا اس سے پہلے میں نے یوسف کے بارے میں تمہارا اعتبار کیا تھا ویسا ہی اس کے حق میں کرتا ہوں تمہاری حفاظت تو معلوم آزمودہ را آزمودن خطاست البتہ اگر اس کا جانا ہی ضروری ہے نہ جانے میں اندیشہ نقصان ہے تو اللہ ہی سب سے اچھا محافظ ہے اور وہ سب سے زیادہ مہربان بھی ہے تمہاری حفاظت پر کیا اعتبار حضرت یعقوب کے اتنے جواب سے وہ کسی قدر مطمئن ہوئے اور اسباب اتارنا اور رکھنا شروع کیا جب اسباب کو انہوں نے کھولا ان کی پونجی جو غلہ کی قیمت میں یوسف کو دے چکے تھے واپس ان کو ملی تو بڑی خوشی خوشی باپ سے کہنے لگے بابا ! ہمیں اور کیا چاہئے دیکھ تو عزیز مصر ایسا رحیم و شفیق اور ہمارے خاندان کا معتقد ہے کہ ہماری کیسی خاطر تواضع کرتا رہا غلہ بھی دیا اور یہ ہماری پونجی بھی ہمیں لوٹا دی گئی جس کے ساتھ ہم اپنی حاجات چلائیں گے اور اپنے اہل و عیال کے لئے غلہ لاویں گے اور اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور اس کے حصہ میں ایک اونٹ جتنا غلہ زیادہ لاویں گے اور یہ غلہ جو ہم لائے ہیں بہت ہی تھوڑا ہے کنبہ کو تمام سال کافی نہ ہوگا یعقوب (علیہ السلام) نے کہا میں اسکو تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک تم مجھے اللہ کے نام سے مضبوط عہد نہ دو گے کہ ضرور اسے میرے پاس زندہ اور سلامت لے آئیو مگر جس صورت میں تم کسی بلا میں گھر جائو اور واقعی مجبور ہوجائو تو میرے نزدیک بھی معذور ہو گے ورنہ نہیں چونکہ اس معاملہ میں ان کی نیت بھی صاف تھی اس لئے ان کو اس امر کی تسلیم میں چوں چرا کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ پس جب وہ باپ کو عہد دے چکے تو اس نے کہا جو ہم اس وقت قول و قرار کے متعلق کہہ رہے ہیں اللہ اس پر شاہد ہے دیکھنا اس پر کاربند نہ ہو گے تو اللہ تم سے سوال کرے گا اور پدری شفقت میں یعقوب ( علیہ السلام) نے یہ بھی کہا میرے بیٹو ! مصر میں داخل ہوتے وقت ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا چشم بددور کہیں نظر بد تم کو نہ لگ جائے مختلف دروازوں سے جانا اور یہ یاد رکھنا کہ میں جو تم سے کہہ رہا ہوں محض ایک تدبیر ہے ورنہ میں اللہ کا حکم تم سے ذرا بھی نہیں ٹال سکتا کیونکہ کل کائنات پر حکم تو اللہ ہی کا ہے میرا بھروسہ اللہ ہی پر ہے میری اس میں کیا خصوصیت ہے سب بھروسہ کرنے والوں کو چاہئے کہ اسی پر بھروسہ کریں وہی سب کا مالک ہے مربی ہے داتا ہے غرض ہست سلطانی مسلم مرورا نیست کس را زہرۂ چون و چرا اور جب وہ باپ کے فرمودہ کے مطابق جہاں سے اس نے داخل ہونے کو کہا تھا داخل ہوئے تو بخیر و عافیت پہنچ گئے لیکن یہ داخلہ اللہ کے آئے ہوئے حکم سے اگر وہ تکلیف پہچانی چاہتا کچھ بھی کام نہ دے سکتا تھا۔ البتہ یعقوب کے جی کا خیال تھا جو اس نے پورا کرلیا اور بتلا بھی دیا کہ اصل باگ سب امور کی اللہ کے ہاتھ ہے کیونکہ وہ یعقوب ہماری روحانی تعلیم کی وجہ سے بڑا صاحب علم تھا لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے اور نہیں سمجھتے کہ کسی بزرگ کو اگر کوئی بات کسی وقت اللہ کی طرف سے معلوم ہوجائے تو وہ محض خداداد ہے نہ یہ کہ وہ غیب دان ہوگیا ایسے لوگوں کی مثال بالکل ویسی ہے جیسے کوئی تاربابو کو خبر دیتے ہوئے جو اسے دور دراز ملکوں سے پہنچی ہو سن کر جہالت سے اپنے اہل و عیال کا حال دریافت کرنے لگ جائے اور یہ نہ سمجھے کہ اس نے جو خبر بتلائی ہے وہ تو کسی کے بتلانے سے بتلائی ہے ورنہ اسے کیا معلوم کہ دیوار کے پیچھے کیا ہے شیخ سعدی مرحوم نے اسی کے متعلق کیا ہی اچھا کہا ہے کسے پرسیدزاں گم کردہ فرزند کہ اے روشن گہر پیر خرد مند زمصرش بوئ پیراہن شنیدی چرا در چاہ کنعانش ندیدی بگفت احوال مابرق جہانست دمے پیدائو دیگردم نہانست گہے برطارم اعلیٰ نشینم گہے برپشت پائے خود نہ بینم