سورة البقرة - آیت 148

وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو ہر گروہ کے لیے ایک سمت ہے جس کی طرف وہ (عبادت کے وقت) رخ پھیر لیتا ہے۔ (پس یہ کوئی ایس بات نہیں جسے حق و باطل کا معیار سمجھ لیا جائے۔ اصلی چیز جو مقصود ہے وہ تو نیک عملی ہے) پس نیکیوں کی راہ میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرو۔ تم جہاں کہیں بھی ہو (یعنی جس جگہ اور جس سمت میں بھی خدا کی عبادت کرو) خدا تم سب کو پا لے گا۔ یقیناً اس کی قدرت سے کوئی بات باہر نہیں

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(148۔176)۔ اور ہم ابھی سے بتلائے دیتے ہیں کہ ہر ایک فر قہ کے لئے ایک جانب کعبہ کی مقرر ہے وہ فر قہ اس جہت کی طرف نماز میں اپنا رخ ضرور پھیرے گا جنوب شمال مشرق مغرب تمام اطراف کے لوگ اپنی اپنی طرف سے کعبہ کی طرف نماز پڑھیں گے جس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت اطراف میں ہوگی ہاں اس میں شک نہیں کہ ابتدا میں تم کو کسی قدر تکلیف ہوگی سو کچھ حرج نہیں تکلیف میں بہت بڑا اجر ہے پس تم اس سے مت ڈرو بلکہ ایسی نیکیوں کے کرنے میں جلدی کرو اور یہ وہم مت لائو کہ مشرق مغرب کے لوگ اس کعبہ میں کیونکر آویں گے اور کیونکر آپس میں ملیں گے اس لئے کہ جہاں کہیں تم ہو گے اللہ تم سب کو ایک جگہ لے آئے گا بے شک اللہ سب کام کرسکتا ہے یہ کام اللہ کے سپرد کر اور اس کی تعمیل ارشاد میں مصروف ہو } (اپنا رخ ضرور پھیرے گا) اس آیت کے معنے بتلانے میں بھی مفسرین کا قدرے اختلاف ہوا ہے بعض کہتے ہیں ہر ایک کے لئے ایک جہت ہے جو وہ اپنا منہ اس طرف پھیرتا ہے مثلاً یہودی ایک طرف عیسائی ایک طرف مشرکین عرب ایک طرف حالانکہ بہتر وہی جہت ہے جو اللہ کے حکم سے ہو پس تم کعبہ کی طرف منہ کرو جو منشاء ایزدی کے موافق ہونے کی وجہ سے ہر طرح سے افضل اور فائق ہے بعض کہیں ھو کی ضمیر اللہ کی طرف پھرتی ہے پس اس توجیہ پر آیت کے معنے دو طرح سے ہوں گے ایک تو یہ کہ ہر ایک کے لئے جہان والوں سے ایک رخ ہے کہ اللہ نے ان کو اس طرف پھیرا ہے۔ مثلاً یہود کو ایک طرف عیسائیوں کو ایک طرف۔ دوسرے معنے یہ ہوں گے کہ ہر ایک کے لئے تم مسلمانوں سے کعبہ کی ایک جہت ہے کہ اللہ تم کو اس طرف پھیرے گا ان معانی کا مفصل ذکر تفسیر کبیر میں مرقوم ہے من شاء فلیرجع الیہ۔ جو معنے میں نے کئے ہیں وہ بہئیت کذائی کسی کے کئے ہوئے تو میرے سے نظر سے نہیں گذرے لیکن انہی وجہ مذکورہ سے مستنبط ہوسکتے ہیں میں نے کل کا مضاف الیہ مخاطب یعنی مسلمان لئے ہیں اور ھو کی ضمیر کل کی طرف ہی پھیری ہے جو متبادر ہے یہ سب اس لئے کیا کہ ان معنے میں ایک قسم کی پیشگوئی ترقی اسلام کے متعلق معلوم ہوتی ہے جو ایسی گھبراہٹ کے زمانہ میں مناسب بلکہ انسب ہے جیسی کہ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ اور جنگ خندق میں آپ نے عین گھبراہٹ کے وقت ایک روشنی دیکھ کر صحابہ کو تسلی فرمائی کہ مجھے روم شام کا ملک دکھایا گیا ہے اور بتلایا گیا ہے کہ یہ ملک میری امت کو ملے گا۔ چنانچہ یہ پیشگوئی معہ ان دو قرآنی پیشگوئیوں کے اللہ کے فضل سے پوری ہوگئیں۔ فالحمدُللّٰہ علٰے ذٰلک { اور مدینہ سے باہر جہاں نکلے وہاں نماز پڑھنے لگے تو اسی عزت والی مسجد یعنی کعبہ شریف کی طرف نماز میں اپنا منہ پھیر اس لئے کہ وہی سچا حکم تیرے مالک کی طرف سے ہے اور جان لو کہ اللہ تمہارے کاموں سے غافل نہیں اس تکلیف کا یہ بدلہ تم کو ضرور دے گا اس لئے ہم تم کو بار بار بتاتے ہیں کہ جہاں سے تو نکلے پس اسی مسجد عزت والی کی طرف نماز میں اپنا منہ پھیرو اور تم بھی مسلمانو ! جہاں کہیں ہوئو نماز پڑھتے وقت اسی طرف اپنا منہ پھیرو تاکہ لوگوں کا جھگڑا تم سے نہ رہے کہ دعوٰی تو ملت ابراہیمی ( علیہ السلام) کا کریں اور کعبہ ابراہیمی ( علیہ السلام) کو چھوڑدیں ہاں جو ان میں سے با لکل ہی کجرو ہیں سو ان سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرو تاکہ تم ترقی کرو اور تاکہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کروں اور تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی راہ پر پہنچو یہ نعمت یہ کامیابی بھی کوئی کم چیز نہیں بلکہ ویسی ہی جیسا کہ ہم نے تمہارے پاس ایک رسول تمہاری جنس کا بھیجا ہے۔ جو ہماری آیتیں تم پر پڑھتا ہے اور کدورت باطنی مثل کفر شرک کینہ نفاق وغیرہ سے تم کو پاک کرتا ہے اور تم کو کتاب آسمانی اور رتہذیب روحانی سکھا تا ہے اور علاوہ اس کے ضروری ضروری باتیں وہ باتیں بھی تم کو سکھاتا ہے جو پہلے اس کے تم نہیں جانتے تھے بڑی بھاری اخلاقی بات جو تم ہمارے رسول سے سیکھتے ہو طریقہ ذکر ہے اس لئے کہ بہت سے لوگ اس میں بھولا کرتے ہیں پس تم اسی طریقہ معلومہ سے میری یاد کیا کرو میں بھی اس کے عوض میں تمہیں انعام خاص سے یاد کروں گا اور اس ہدایت کا احسان مان کر میرا شکریہ ادا کرو اور نا شکری مت کرو کہ اس طریقہ محمدیہ کو چھوڑ کر نئی نئی راہیں نکالنے لگو اور جس طریق سے ہمارے پیغمبر نے تم کو تعلیم نہیں دی اس طور سے ذکر کرنے لگ جائو کیونکہ الہی معلم کے طریق کو چھوڑنا بڑی بھاری نا شکری ہے اس میں شک نہیں کہ ذکر اور شکر بھی ایک مشکل کام ہے مگر اس کے لئے ایک آسان طریق ہم بتلاتے ہیں پس اے مسلمانو ! تم صبر اور نماز کے ساتھ مدد چاہا کرو یعنی تکلیفوں کے وقت صبر کے خو گیر ہوجائو اور ہر وقت اس کا خیال رکھو اور جب کبھی تکلیف ناگہانی آجاوے تو نفل پڑھ کر دعا کیا کرو ان دونوں کے استعمال اور مزاولت سے تم پکے ذاکر شاکر بن جائو گے اس لئے کہ ان دونوں کاموں پر بہت سے آثار باطنی فیضان ہوتے ہیں بڑی بات تو یہ کہ بے شک اللہ تعالیٰ کی ہر وقت مدد صابروں کے ساتھ ہے تمہارے صبر کی نشانوں میں سے یہ بھی ہے کہ تم اپنے بھائی بندوں کے مرنے پر واویلا نہ کیا کرو اور خاص کہ ان لوگوں کو جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل ہوتے ہیں مردے مت کہا کرو } شان نزول :۔ (وَلَا تَقُوْلُوْا) جنگ بدر میں چودہ مسلمان شہید ہوئے تھے ان کے وارث حسب طبیعت انسانی ان کا رنج رکھتے تھے اور ان کا ذکر کرتے ہوئے کہ فلاں شخص مر گیا فلاں قتل ہوا ان کو ملال ہوتا تھا۔ ادھر کفار نے بھی یہ کہنا شروع کیا کہ یہ لوگ ناحق (ایک شخص (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے ہو کر جان دیتے ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو شہداء کے مردہ کہنے سے جو ان کے حق میں باعث رنجیدگی کا ہو روکنے کو یہ آیت نازل ہوئے۔ { اس لئے کہ جب تم آپس میں بول چال کرتے ہوئے کہتے ہو کہ فلاں مر گیا فلاں قتل ہوگیا تو اس کہنے سے تمہیں ایک قسم کا بے اختیاری قلق ہوتا ہے پس ایسا کہنا ہی چھوڑ دو بلکہ یہ سمجھو کہ وہ زندہ ہیں اور اگر غور کیا جائے تو زندہ ہی ہیں اس لئے کہ جو زندگی کا حاصل ہے وہ ان کو بطریق احسن حاصل ہے ہر طرح کے عیش و آرام میں ہیں لیکن تم اس کی کیفیت نہیں جانتے کہ کس قسم کا ہے کیونکہ تمہاری نظر سے غائب ہیں سچ پوچھو تو صبر ایک عجیب ہی وصف جامع کمالات ہے اس لئے ہم تم کو صبر کی ہدائت کرتے ہیں اور آئندہ تمہیں کس قدر دشمنوں کے خوف اور بھوک یعنی تنگی معاش اور مال و جان اور پھلوں کے نقصانات سے تجر بہ کار بنادیں گے جو ایسے وقت میں کامیاب ہوں گے انہی کے حق میں اپنے رسول کو ہدائت کرتے ہیں کہ تو ایسے صبر والوں کو خوش خبری سنا۔ جو مصیبت کے وقت بجائے بے ہودہ شور و غل کرنے کے بجائے بجوش دل کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ ہی کی ملک ہیں جس طرح چاہے ہم میں تصرف کرے ہمیں کوئی عذر نہیں اور ہو بھی کیسے جبکہ بلا شک ہم اس کے حضور جا نے کو ہیں تو جیسا کچھ ہوگا وہاں کھل جائے گا سچ تو یہ ہے کہ انہی لوگوں پر ان کے رب کی شا باش ہے اور رحمت ہوگی اور یہی لوگ سیدھی دانائی کی راہ پر چلنے والے ہیں کیونکہ یہ کمال دا نائی ہے کہ ما تحت اپنے افسر سے بگاڑے نہیں اگرچہ اس کی طرف سے کیسی ہی تکلیفیں پہنچیں سب کو بڑی خوشی سے اٹھائے با لخصوص ایسا افسر جو تمام اختیا رات کاملہ رکھتا ہو دیکھو ہم تمہیں اس صبرکے متعلق ایک حکائت سناتے ہیں کہ جب حضرت اسمٰعیل ( علیہ السلام) کی والدہ نے جس وقت ابراہیم ( علیہ السلام) اس کو بحکم خداوندی جنگل میں چھوڑ گئے تو اس نے صبر وشکر سے کام لیا اور جب اسے پیاس کی سخت تکلیف پہنچی تو وہ بیچاری پانی کی تلاش میں ان دونوں پہاڑیوں پر جو شہر مکہ کے قریب ہیں جس کا نام صفا مروہ ہے دوڑنے لگی کہ کہیں سے پانی ملے اسوقت کی اس صابرہ کی یہ دوڑ ہمیں ایسی بھلی معلوم ہوئی کہ علاوہ ان احسانات کے جو اس وقت اس پر اور اس کے بچے پر کیے ہم نے عام طور پر اس صابرہ کا صبر جتلانے اور اس پر اپنی خوشی کا اظہار کرنے کو اعلان کردیا کہ صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں بے شک اللہ کی قبولیت کی نشانیاں ہیں جو شخص دیکھنا چاہے کہ اللہ صبر پر بھی کچھ بدلہ دیتا ہے وہ صفا مروہ کو دیکھ لے یہاں سے اس کو اسمٰعیل ( علیہ السلام) اور اس کی ماں کا قصہ معلوم ہوجائے گا کہ ہم نے کیونکر اس کو صبر کا بدلہ دیا کہ عموماً اس کی نسل سے تمام عرب کو آباد کیا پھر اسی پر بس نہیں کی بلکہ اس کے پانی کی تلاش والی چال ان دونوں پہاڑیوں میں ہمیں یہاں تک بھلی معلوم ہوئی کہ ہم نے عام طور پر لوگوں کو حکم دیا کہ جو کوئی حج یا عمرہ کرنے کو آوے تو ان دو پہاڑیوں کے گرد بھی پھر لے تو اس پر کوئی گناہ نہیں بلکہ ثواب ہے اور جو کوئی ایسے ثواب بھی کمائے گا تو ضرور اللہ اس کو بد لہ دے گا اس لئے کہ اللہ تو بڑا قدر دان اور ان کو جاننے والا ہے } شان نزول :۔ مدینہ کے لوگوں کے زمانہ کفر میں صفا مروہ پر دو بت رکھے تھے اور ان کا طواف کیا کرتے تھے جب اسلام لائے تو انہوں نے ان بتوں کے طواف کو تو برا سمجھا ہی تھا۔ یہاں تک ان سے بیزار ہوئے کہ صفا مروہ (جن پر وہ بت رکھے تھے) کے درمیان سعی کرنا بھی انہوں نے حرام جانا ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی { با وجود اس کے بعض لوگ خبیث النفس ایسے بھی ہیں کہ ہمارے احکام متعلقہ صبر وغیرہ عوام سے چھپاتے ہیں صاف طور پر بیان نہیں کرتے سو یاد رکھو کہ جو لوگ ہمارے اتارے ہوئے کھلے کھلے احکام اور ہدائت لوگوں سے چھپاتے ہیں بعد اس کے جو ہم نے اس کو کتاب میں لوگوں کے لئے بیان بھی کردیا تو ایسے ہی لوگوں کو اللہ لعنت کرتا ہے اور تمام دنیا کے لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں } یہود نصاریٰ کے علماء سچی باتوں کو اکثر لوگوں سے چھپاتے تھے جس سے غرض ان کی محض لوگوں کو خوش کرنا تھا۔ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ علماء اسلام اس سے متنبہ ہوں کہ تھوڑی تھوڑی اغراض نفسانی کے لئے حق پوشی نہ کیا کریں ورنہ ان میں اور ان میں کیا فرق ہوگا۔ { ہاں جنہوں نے اس گناہ سے توبہ کی اور آئندہ کو عمل اچھے کیے اور اپنی پہلی غلطیاں بیان بھی کردیں تو ان لوگوں پر میں بھی رحم کرتا ہوں۔ اور میں ہمیشہ سے بڑا ہی رحم والا مہربان ہوں جو کوئی مجھ سے ڈر کر ذرہ بھی جھکے تو میں فوراً اس کو اپنی رحمت میں لے لیتا ہوں ہاں جو لوگ شریر اور متکبر ہیں کہ میری کتاب اور رسول سے منکر ہوئے اور تمام عمر بھی اس سے باز نہ آئے بلکہ اسی حالت کفرہی میں مرے تو ان پر اللہ اور اللہ کے فرشتوں اور سب نیک بندوں کی طرف سے لعنت ہے اور اسی لعنت کے وبال میں ہمیشہ رہیں گے نہ انکے عذاب میں تخفیف ہوگی اور نہ عذرداری کے لئے ان کو مہلت ہی ملے گی کیونکہ انکا جرم بھی تو بہت بڑا ہے کہ توحید اور خداوندی احکام سے منکر ہیں اور اوروں کو اللہ بناتے ہیں حالانکہ تمہارا سب کا اللہ ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی بھی اللہ نہیں وہ بڑا رحم والا نہائت مہر بان جس کی انہوں نے قدر نہ کی بلکہ بجائے شکر گزاری کے نا شکری کو پسند کیا تو کیسی نادانی کی بھلا ایسے اللہ مالک الملک کا بھی کوئی انکاری ہوسکتا ہے کہ جس کے وجود کی شہادت چاروں طرف سے آتی ہو آسمان ! اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کی تبدیلی میں اور ان جہازوں میں جو سمندر میں لوگوں کے نفع کو چلتے ہیں اور اللہ کے آسمان سے اتارے ہوئے پانی میں جس سے زمین کو بعد خشکی کے تازہ کرتا ہے اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلاتا ہے اور ہوا کے ادھر ادھر پھیرنے میں اور ان بادلوں میں جو زمین اور آسمان کے درمیان گھرے ہوئے ہیں بے شک عقل والوں کے لئے بہت نشانیاں ہیں جو ان اشیا کے ہیر پھیر سے اس نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ واقعی ان کا بنانے والا واحد لا شریک ہے اور وہی لائق عبادت ہے مگر باوجود ایسے نشانوں کے بھی بعض لوگ ایسے احمق ہیں کہ اللہ کے سوا اور معبود بناتے ہیں یہ نہیں کہ ان کو اپنا خالق جانتے ہوں یا رزاق سمجھتے ہوں نہیں طرفہ تو یہی ہے کہ رزق کا مالک ایک ہی اللہ کو جانتے ہیں باوجود اس کے ان بناوٹی معبودوں سے ایسی محبت اور دلی لگائو کرتے ہیں کہ جیسی اللہ سے چاہئے یہ بھی تو ایک قسم کا شرک ہے کہ اللہ کی سی محبت اوروں سے کی جائے یہی وجہ ہے کہ جو مومن ہیں وہ دلی لگائو اور قلبی خلوص سب سے زائد اللہ کے ساتھ رکھتے ہیں کیونکہ وہ اپنی کمال دور اندیشی سے جانتے ہیں کہ ہمارا جس قدر تعلق اللہ کے ساتھ ہے اس طرح کسی اور کے ساتھ نہیں ہماری عزت، ذلت، غربت، امارت سب اسی کے قبضہ میں ہے بخلاف پہلے لوگوں کے جو اوروں میں بھی کچھ طاقت کارروائی کی سمجھتے ہیں اس بے وقوفی کا انجام آخرت میں تو دیکھ ہی لیں گے اگر ابھی سے یہ ظالم اپنے اس باطل عقیدے کی سزا اور عذاب کی گھڑی کو دیکھ لیں تو جان جائیں کہ بے شک ہم غلطی میں ہیں کہ اوروں میں بھی توا نائی سمجھتے ہیں اب معلوم ہوا کہ توانائی سب اللہ ہی کو ہے اور سوائے اس کے کسی کو نہیں اگر ہوتی تو ہمیں مصیبت سے ضرور ہی بچا لیتے ایسے ہی مشکل وقت میں قدر معلوم ہوگی اور یہ بھی معلوم ہوگا کہ واقعی اللہ کا عذاب سخت ہے ابھی تو یہ احمق اپنے شرک کی بلا میں پھنسے ہوئے کچھ نہیں سمجھتے لطف تو جب ہوگا کہ جس وقت ان کے جھوٹے پیشوا اپنے پیروکاروں سے بیزار ہوجاویں گے اور سامنے سے عذاب دیکھیں گے اور ان کے سب علاقے ٹوٹ جاویں گے اور پیرو کار مرید تنگ آکر بول اٹھیں گے کہ اگر ہم دنیا میں ایک مرتبہ پھر جاویں تو ضرور ہی ہم بھی ایسے دغا بازوں سے ایسے ہی بیزارہوں جیسے کہ یہ ہم سے ہوئے اور کبھی بھی تو ان کی نہ سنیں گے چاہے جتنا بھی زور لگائیں مگر اس وقت کا افسوس کیا مفید نہ ہوگا ایسا ہی کئی دفعہ اللہ انکے اعمال قبیحہ ان کو دکھائے گا کہ اپنی بد کرداری پر افسوس کریں اور ہمیشہ ہی ان کو جہنم میں رکھے گا جس کی آگ سے کبھی بھی نکل نہ سکیں گے بعض لوگ اپنی غلط فہمی سے یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ سے محبت جبھی ہوتی ہے کہ تمام کاروبار دنیاوی اور لذیذاشیا کو ترک کردیں ورنہ نہیں۔ سو ایسے لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کو ہم عام طور پر اعلان دیتے ہیں کہ اے لوگو کھائو اور پیئو دنیا کی حلال اور پاک چیزیں ایسی جائز لذت اٹھانے میں کوئی حرج اور ممانعت نہیں حرج تو اس میں ہے کہ اس کھا نے میں غرور ہو سو تم ایسا مت کرو اور شیطان کے پیچھے مت جائو وہ ضرور تمہارا صریح دشمن ہے کبھی تم سے بہتری سے پیش نہ آئے گا بلکہ ہمیشہ تمہاری برائی ہی کی تدبیریں سوچے گا اور سوچتا ہے کیونکہ وہ بجز بد اخلاقی اور بے حیائی کے کوئی بھی تم کو راہ نہیں بتلاتا اور ہمیشہ بری بری باتیں سکھلاتا ہے سب سے بری یہ سکھاتا ہے کہ تم اللہ کی نسبت ایسی بے ہودہ بات کہو جسے تم خود بھی یقیناً نہیں جانتے چنانچہ تم سے اللہ کا شریک اور ساجھی کہلواتا ہے اور اس کی اولاد کی تلقین کرتا ہے کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے حالانکہ تم بھی یقینی طور پر نہیں کہ سکتے ہو کہ اللہ کا کوئی ساجھی یا اولاد ہے اس کی بڑی بھاری چال بازی یہ ہے جس کسی کو بہکاتا ہے یہی کہہ کر بہکاتا ہے کہ تمہارے باپ دادا ایسا ہی کرتے آئے ہیں پس تمہیں بھی اسی راہ چلنا چاہئے کیا تم ان سے زیادہ دانا ہو کیا وہ بے وقوف ہی تھے ؟ پس لوگ اسی پر جم جاتے ہیں اور جب ان سے کوئی شخص بطور نصیحت کہنے لگے کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کی پیروی کرو تو فوراً کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو اسی راہ پر چلیں گے جس پر ہمارے باپ دادا تھے کیسی نادانی کا جواب ہے کہ کیا ان باپ دادوں ہی کے پیچھے چلیں گے گو باپ دادا ان کے ایسے احمق ہوں کہ کسی کے سمجھانے پر بھی نہ سمجھیں اور نہ خودہی راہ پر ہوں سچ تو یہ ہے کہ جب کسی کے دل میں باپ دادا کے اتباع کا خاقل بیٹھ جائے تو پھر کوئی ہدائت اثر نہیں کرتی بلکہ ایسے کافروں کو ہدایت اور راہ راست کی طرف بلانے والے کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو کسی ایسے جانور کو بلاتا ہے کہ جو سوائے پکار اور آواز کے کچھ نہیں سنتا یہی حال ان احمقوں کا ہے جو کوئی ان کو ہدایت کی طرف بلائے اس کی آواز تو صرف سنتے ہیں مگر مطلب کی طرف جی نہیں لگاتے کہ کیا کہہ رہا ہے حق ہے یا باطل کیونکہ یہ لوگ اپنے خیالی پلائو میں حق سننے سے گویا بہرے ہیں سچ بولنے سے گونگے اور اپنی کج روی دیکھنے میں اندھے ہیں پس یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ حق نہیں سمجھتے ہاں یہ خیال مت کرنا کہ اللہ کی محبت عمدہ اور لذت دار چیزوں سے روکتی ہی نہیں سنو ! ہم اعلان دیتے ہیں کہ اے ایمان والو ! ہماری دی ہوئی حلال چیزوں میں سے خوب کھائو اور جی میں یہ سمجھ کر کہ اللہ ہی نے دی ہیں اللہ کا شکر کرو اگر تم اس کے کامل بندے بننا چاہتے ہو تو یہی مناسب ہے کیا تم نے شیخ سعدی کا قول نہیں سنا ــ” درویش صفت باش کلاہ تتری دار“ ہاں میتہ یعنی خود مردہ چیز اور ذبح کے وقت کا خون اور گوشت خنزیر اور جو اللہ کے سوا غیر کے نام سے پکاری ہو کہ فلاں ١ ؎ پیر کی نیازیا فلاں دیوی کا بکرا بے شک تم پر حرام ہے پھر بھی جو کوئی مجبور ہو نہ حرام خوری کی چاٹ میں حرام خوری کی تلاش کرنے والا ہو کر بلکہ پابند شریعت اور تابعدار من پسند ہو اور نہ کھانے میں حد سے بڑھنے والا ہو تو اس شخص پر کوئی اس گناہ کا مواخذہ نہیں بقدر حاجت کھا لے گو یہ اشیا اصل میں حرام ہیں لیکن بوجہ تنگی اس کی کے معافی دی گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑی بخشش والا مہربان ہے } فلاں پیر کی نیاز) زمانہ حال میں یہ اختلاف ہے کہ غیر اللہ کے نام کی اشیاء جو بغرض تقرب مقرر کی جاتی ہیں جب ان کو بسم اللہ سے ذبح کیا جاوے تو حلال ہیں یا حرام؟ بعض لوگ اس کو حلال مانتے ہیں مگر محققین کے نزدیک حرام ہیں۔ حضرت حجۃ الہند شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی قدس سرہ العزیز نے اسی کو پسند کیا ہے اور مولانا عبدالحق صاحب مصنف تفسیر حقانی دہلوی بھی اسی کو ترجیح دیتے ہیں اس لئے کہ ایسی اشیاء کی حرمت کچھ ایسی عارضی نہیں ہوتی جیسے بغیر اجازت چیز میں ہوتی ہے جو بعد اجازت حلال ہوجاتی ہے بلکہ ان کی حرمت کا سبب شرک ہے جو ابتداء ہی سے اس میں اثر کر گیا ہے۔ سرسید سے اس مسئلہ میں مشرکوں کی تائید ہوگئی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ :۔ ” حرام نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سوائے اللہ کے کسی کے نام کی کوئی چیز مقرر کر دیناشرک نہیں بلکہ اقدام علی الشرک ہے شرک جب ہوگا کہ اسی کے نام پر ذبح کی جائے اور جب ذبح اللہ کے نام پر ہے تو پھر اقدام علی الشرک سبب حرمت نہیں “ میں کہتا ہوں سید صاحب کا یہ فرمانا کہ تسمیہ غیر اللہ کے نام کا شرک نہیں صحیح نہیں بلکہ یہ بھی شرک ہے اس لئے کہ شرک تو نیت کے متعلق ہے نہ کہ خاص فعل سے لَنْ یَّنَال اللّٰہَ لُحُرْمُھَآ وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ اس کا مؤید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہٗ نے غیر اللہ کی نسبت غلامی کو بھی شرک قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں :۔ ” از ینجا دانستہ شد کہ شرک در تسمیہ نوعیست از شرک چنانکہ اہل زمان ما غلام فلاں وعبد فلاں نام مے نہند“ (حاشیہ ترجمہ قرآن پارہ ٩ ربع ثالث) پسؔ آپ کا یہ فرمانا کہ یہ نیت اقدام علی الشرک ہے شرک نہیں۔ قابل نظر ہے۔ رہا ان لوگوں کا جھگڑا جو ایسی چیزوں کو اس تاویل سے کہ ہمیں ثواب رسانی مقصود ہوتی ہے۔ نہ کہ ان بزرگوں سے تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سو یہ تنازع لفظی ہے اس لئے کہ ان کی تقریر سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ تقرب غیر اللہ (تقرب غیر اللہ اس کو کہتے ہیں کہ سوا اللہ کے کسی کے نام کا بکرا یا کوئی اور چیز اس نیت سے دی جائے کہ یہ صاحب میری اس نیاز کو قبول کریں۔) اگر ہو تو بے شک حرام ہے مگر صورت مروجہ میں نہیں پایا جاتا۔ پس اب ہماری تلاش یہ ہوگی کہ ایسے موقعہ پر ہم بقرائن دریافت کریں کہ ان لوگوں کی غرض کیا ہوتی ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب نے بھی ایک قرینہ بتلایا ہے وہ یہ ہے کہ ان لوگوں سے کہا جائے کہ تم اس بکرے جتنا گوشت بازار سے لے کر مساکین کو کھلا دو اور پیر صاحب کو ثواب پہنچا دو۔ تو ہرگز نہیں مانیں گے۔ معلوم ہوا کہ غرض ان کی صرف غیر اللہ کے نام پر جان دینے کی ہے نہ کچھ اور سو یہی شرک ہے۔ پس اس موقعہ پر بسم اللہ سے ذبح کرنا کیا مفید ہوسکتا ہے؟ راقم کہتا ہے۔ تمام لوگوں کا پیر صاحب کے نام سے ذبح کرنا اور اس سے ایصال ثواب مقصود رکھنا میری سمجھ میں نہیں آتا۔ کیا وجہ ہے کہ حضرت آدم کے نام کی کوئی نیاز نہیں کرتا۔ کسی نے آج تک حضرت موسیٰ کے نام کی چاء نہیں پکائی۔ کبھی نہیں سنا کہ کسی نے بکرے کا ثواب حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کو پہنچایا ہو۔ حالانکہ اگر باعتبار بزرگی کے دیکھا جائے۔ تو اس تعظیم میں وہی لوگ زیادہ حق رکھتے ہیں جن کی بزرگی دلیل قطعی سے ثابت ہو۔ پس یہ بھی ایک قرینہ اس امر کا ہے کو ثواب رسانی مقصود نہیں۔ علاوہ اس کے ہم نے بذات خود ایسے لوگوں کا حال دیکھا ہے جن کو پیروں کے نام پر نیازیں دینے کی عادت ہے بالکل یہی جانتے ہیں اس نیاز کی قبولیت پیر صاحب کی طرف سے ہے اور اس قبولیت کے عوض میں وہ ہماری بلا ضرور ہی دفع کردیں گے۔ یا حصول مطلب کرا دیں گے۔ ہاں بعض لوگوں کا اعتراض بھی قابل ذکر ہے کہ پاک کتاب کی تفسیر ایسے سوالوں کے ذکر کے مناسب نہیں مگر اس لئے کہ ایسے لوگوں کا شبہ بھی حل ہوجائے کچھ لکھا جاتا ہے ایسے لوگ کہتے ہیں کہ اگر پیر صاحب کا بکرا کہنے سے وہ بکرا حرام ہوجاتا ہے تو پھر کوئی چیز بھی حلال نہ ہوگی اس لئے کہ ہر ایک چیز کو ہم کہا کرتے ہیں کہ یہ روٹی زید کی ہے اور وہ بیوی عمرو کی پس یہ بھی حرام ہوئیں سبحان اللّٰہ ما اَصْدَقَ رسول اللّٰہِ فداہُ ابِیْ و اُمِّی یٰرْفَعُ الْعِلْمُ وَیَفْشُوا لْجَھْلُ قَبْلَ الْقِیَامَۃِ۔ افسوس ان حضرات نے یہ نہیں سمجھا کہ ان صورتوں میں تو اضافت تملک ذات یا منافع کی ہے۔ پیر صاحب کی نسبت میں کون سی اضافت ہے۔ اگر یہی ہے تو مردہ کی ملک کیونکر ہوئی اور اگر ہوئی تو بلا اجازت ان کے اس چیز کو کیوں کھاتے ہو؟ اصل یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں بنی اسرائیل کی طرح بچھڑے کی محبت گھر کرگئی ہوئی ہے۔ اس لئے ایسی باتیں ان سے کچھ بعید نہیں۔ اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ { ایسے صاف اور صریح احکام سن کر ان کتاب والوں کے پاس کوئی حجت نہیں رہتی۔ تو ایک نئی بات نکالتے ہیں کہ اس نبی کے حق میں پہلی کتابوں میں کوئی پیش گوئی نہیں اور اگر یہ نبی برحق ہوتا تو اس کے لیے کتب سابقہ میں ضرور کوئی خبر ہوتی حالانکہ جانتے ہیں کہ اکثر انبیاء نے یہ خبر دی ہوئی ہے مگر ان کے ظاہر ہونے سے ان کو نقصان پہنچتا ہے اس لیے ان کو چھپاتے ہیں سو یاد رکھیں کہ بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کی تاری اور بتلائی ہوئی خبریں کتاب سماوی سے مخفی کرتے ہیں اور عوام لوگوں کو جو یہ بات ان سے پوچھتے ہیں تو اور ہی معنی بتلاتے ہیں اور اس کے عوض میں دنیائے دوں کا کسی قدر مال لیتے ہیں تاکہ مزے سے چند روزہ زندگانی بسر کریں وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم پلاؤ گوشت کھا رہے ہیں بلکہ سراسر آگ ہی اپنے پیٹ میں ڈال رہے ہیں جس کا بدلہ ان کو آگ ہی ملے گا اور نہ قیامت کے دن اللہ ان سے مہربانی سے کلام کرے گا اور گناہوں سے ان کو معافی دے گا بلکہ بجائے معافی کے مواخذہ ہوگا اور اس مواخذہ میں ان کو سخت عذاب پہنچے گا اس لیے کہ یہی تو ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلہ میں قرآن جیسی پاک کتاب چھوڑ کر اپنے اپنے خاچلات واہیہ میں پھنسے اور عذاب الٰہی کو بخشش کے عوض میں لے چکے ہیں۔ پس دیکھیے کیسے صابر ہیں آگ کے عذاب پر اس قدر ان پر سختی کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے تو سچی کتاب قرآن کریم اتاری ہے اور جو لوگ اس میں کج روی سے مخالف ہیں ان کا حال ہم پہلے ہی بتلا چکے ہیں کہ وہ بڑی بھاری بدبختی میں ہیں