وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَىٰ قَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ ۖ فَمَا لَبِثَ أَن جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ
اور یہ واقعہ ہے کہ ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے تھے، انہوں نے کہا تم پر سلامتی ہو، ابراہیم نے کہا تم پر بھی سلامتی، پھر ابراہیم فورا ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آیا (اور ان کے سامنے رکھ دیا کہ یہ میرے مہمان ہیں)
(69۔83) اور سنو ! ایک دلچسپ قصہ تم کو سناتے ہیں جس سے تمہیں بھی ہدایت ہو اور تم جان لو کہ کام اللہ تعالیٰ کرنا چاہے اسے کوئی نہیں روک سکتا وہ یہ ہے کہ تمہارے دادا حضرت ابراہیم کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے بیٹے کی خوشخبری لے کر آئے تو انہوں نے ابراہیم کو سلام کہا ابراہیم نے سلام کا جواب دیا اور دل میں ان کو مہمان سمجھا پس تھوڑی دیر میں وہ یعنی ابراہیم ( علیہ السلام) اپنی معمولی دریا دلی اور مہمان نوازی سے ایک بچھڑا جو سردست اس کے پاس موجود تھا ذبح کر کے اس کا بھنا ہوا گوشت ان کے کھانے کو لے آیا وہ فرشتے تھے بھلا وہ کیسے کھاتے وہ کھانے سے رکے رہے تو جب ابراہیم ( علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ بھی کھانے کو نہیں بڑھتے تو چونکہ غیب دان نہ تھا ان کی اس حرکت کو مہمانوں کے خلاف عادت اوپرا سمجھا اور جی میں ان سے خوف زدہ ہوا کہ مبادا یہ کسی دشمنی اور گزند رسانی کی نیت سے آئے ہوں فرشتوں نے قیافہ سے ابراہیم ( علیہ السلام) کا خوف معلوم کر کے کہا کہ ابراہیم خوف نہ کر ہم لوط کی قوم کی ہلاکت کے لئے بھیجے گئے ہیں اس وقت ابراہیم کی بیوی سارہ کھڑی یہ باتیں سن رہی تھی بد ذات لوطیوں کی خبر سن کر ہنس پڑی اور ہم نے فرشتوں کی معرفت اسے اسحق کے تولد ہونے کی خوشخبری دی اور اسحق کے بعد یعقوب کی وہ چونکہ بہت بوڑھی تھی سنتے ہی تعجب سے ہائے ہائے کرنے لگی کہ میں اس عمر میں کیونکر جنوں گی؟ حالانکہ میں بوڑھی ہونے کے علاوہ بانجھ بھی ہوں اور یہ میرا خاوند بوڑھا پیر فرتوت ہے یوں تو دنیا میں توالد و تناسل کا سلسلہ جاری ہے مگر ایسا جتنا کہ بیوی بانجھ ہونے کے علاوہ منہ میں دانت نہیں اور میاں ایک سو بیس برس کا کمر پر ہاتھ رکھنے بغیر اٹھ نہیں سکتا تو بیشک عجیب امر ہے فرشتوں نے اس کے جواب میں کہا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے تعجب کرتی ہے۔ اے ابراہیم ( علیہ السلام) کے گھر والو تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں تم بھی ایسا مایوسی کا خیال کرو گے تو اور لوگوں کا کیا حال بیشک وہ اللہ تعالیٰ بڑی تعریفوں والا اور بزرگی والا ہے پس جب ابراہیم کے دل سے خوف دور ہوا اور اولادکی خوشخبری بھی اسے آچکی تو ہمارے فرشتوں کے ساتھ لوطیوں کے حق میں جھگڑنے لگا یعنی بڑی مضبوطی سے چاہتا تھا کہ لوط کی قوم ہلاک نہ ہو کیونکہ ابراہیم ( علیہ السلام) بڑا بردبار بڑا نرم دل اور ہر ایک بات میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع تھا اصل میں ابراہیم ( علیہ السلام) کی نیت بھی نیک تھی کہ شاید ان میں کوئی نیک بھی ہو یا آئندہ کو پیدا ہوجائے لنکت چونکہ اللہ تعالیٰ کو سب کے حال سے پوری واقفی ہے اس لئے اسے کہا گیا اے ابراہیم ( علیہ السلام) ! اس خیال کو چھوڑ دے تیرے کہنے سننے سے یہ حکم ٹل نہیں سکتا کیونکہ تیرے رب کا قطعی حکم آچکا ہے یعنی ان پر عذاب اٹل آنے والا ہے ادھر تو یہ حالت تھی جو تم سن چکے اور ادھر لوط کی کیفیت تھی کہ جب ہمارے فرستادہ ملائکہ لوط کے پاس بشکل امرد آئے تو بوجہ عدم علم غیب کے ان کا آنا اسے برا معلوم ہوا اور جی میں گھبرایا کہ اللہ تعالیٰ جانے میری قوم کے بدذات لوگ ان کو کیا تکلیف پہنچا دیں گے اور کس نالائق حرکت کے ساتھ ان سے پیش آویں گے اور کہا کہ یہ بڑی مصیبت کا دن ہے اللہ تعالیٰ خیر کرے ) سر سید نے اس قصے کے متعلق جو تقریر کی ہے اور جہاں تک عرق ریزی کر کے قرآن شریف جیسے واضح کلام کو اندھوں کی کھیر بنایا ہے ہمارے خیال میں ان کے جواب میں خود ہی تقریر ہے اس لئے ہم اس موقعہ پر ان سے متعرض نہیں ہوتے۔ منہ ( ابھی وہ اس پریشانی میں تھا کہ فرشتے اندر آگئے اور اس کی قوم کے آوارہ لوگ ان کو دیکھ کر اس کے گھر کی طرف بھاگتے ہوئے آئے کیونکہ خوش شکل لڑکوں کی صورت میں تھے اور وہ لوگ اس واقعہ سے پہلے لواطت وغیرہ بدکاریاں کیا کرتے تھے یہ دیکھ کر لوط نے ان کے سر کردوں سے کہا اے بھائیو ! یہ میری بیٹیاں موجود ہیں جو تمہارے لئے بطریق شرعی ہر طرح سے پاک اور صاف ہیں ) ناواقف کہا کرتے ہیں کہ حضرت لوط ( علیہ السلام) نے اپنی لڑکیوں کو اس طرح کیوں پیش کیا اگر لواطت منع تھی تو زنا بھی تو حرام ہے ہم نے اس لفظ (بطریق شرع) میں اس کے جواب کی طرف اشارہ کیا ہے یعنی حضرت لوط ( علیہ السلام) کا یہ مطلب نہ تھا کہ ان کو لے جا کر یونہی بدکاری کرنے لگ جائو نہ ہر ایک سے خطاب تھا بلکہ ان کے خاص ایک دو سرگردہوں سے کہا تھا کہ میری لڑکیاں بیاہ لو مگر ایسی حرکت نہ کرو۔ شرعی اصطلاح میں اطہر کے یہی معنی ہیں۔ ١٢ منہ ( پس تم اللہ سے ڈرو اور مہمانوں کے بارے میں مجھے خفیف نہ کرو آخر وہ کیا کہیں گے کہ ہم لوط کے گھر پر مہمان ہو کر آئے تو ہمارے ساتھ برائی کی گئی لوط بھی اس میں شریک ہے کیا تم میں کوئی سمجھدار بھلا آدمی نہیں مگر وہ شہوت اور لواطت پر تلے ہوئے ایسے کہاں تھے کہ یہ بات ان پر اثر کرتی بیک زبان بولے تو جانتا ہے کہ ہمیں تیری بیٹیوں سے کوئی مطلب نہیں اور جو ہمارا ارادہ ہے وہ بھی تجھے معلوم ہے ناحق تو تجاہل عارفانہ کر کے ہمیں ٹلانا چاہتا ہے لوط نے کہا ہائے کاش کہ آج مجھ کو اتنی قوت ہوتی کہ میں تن تنہا تمہارا مقابلہ کرسکتا یا کسی زبردست حمائتی کی پناہ میں آیا ہوتا جو تمہارے دفع کرنے پر قادر ہوتا۔ لوط جب سب طرح کے حیلے کرچکا اور کوئی بھی کارگر نہ ہوا تو فرشتوں نے کہا اے لوط تو کس خیال میں ہے ہم تیرے پروردگار کے ایلچی ہیں تو ان کو چھوڑ تو دے یہ ہرگز تیرے پاس تک نہ پہنچ سکیں گے پس تو اپنے کنبے کے لوگوں کو لے کر رات کے وقت اس شہر سے نکل جا اور کوئی تم میں سے پھر کر نہ دیکھے تاکہ کفار کی ہلاکت دیکھ کر مبادا تم کو بھی کوئی صدمہ پہنچ جاوے مگر تیری بیوی ضرور دیکھے گی کیونکہ اس پر بھی وہی مصیبت آنے والی ہے جو ان پر آنے کو ہے ان کے عذاب کے لئے صبح کا وقت مقرر ہے لوط نے کہا اس سے بھی جلدی ہونی چاہیے تو فرشتوں نے کہا کیا صبح قریب نہیں؟ پس جب ہمارا حکم ان کی ہلاکت کا آ پہنچا تو اس بستی کی اوپر کی جانب کو ہم نے پست کردیا یعنی جتنے مکان بلند تھے سب کو سطح زمین سے ملا دیا جتنے آدمی ان کے نیچے تھے سب کو ہلاک کیا کچھ یوں مرے اور بعض کو جو اس وقت میدان میں پھر رہے تھے یوں ہلاک کیا کہ اس بستی کے بعض حصہ پر ہم نے کنگروں کی پتھریاں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسے ہی ظالموں بدکاروں کے لئے مقرر تھیں برسائیں اور وہ پتھریاں ظالموں سے کچھ دور نہیں یعنی یہ پتھروں کی سزا ایسے بدذاتوں کے لئے کوئی مستعد امر اور خلاف انصاف تھا بلکہ وہ اسی کے مستوجب تھے