الر ۚ كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ
الر۔ یہ کتاب ہے جس کی آیتیں (اپنے مطالب و دلائل میں) مضبوط کی گئیں پھر کھول کھول کر واضح کردی گئیں، یہ اس کی طرف سے ہے جو حکمت والا (اور ساتھ ہی) ساری باتوں کی خبر رکھنے والا ہے۔
(1۔24) میں ہوں اللہ سب کچھ دیکھنے والا سچ سمجھو کہ اس کتاب قرآن شریف کے احکام مضبوط اور محکم ہیں اور اللہ تعالیٰ نے حکیم و خبیر کے ہاں سے مفصل بیان کئے جا چکے ہیں (تو کہہ کہ) سب سے اول حکم یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو کچھ شک نہیں کہ میں تم کو اس کی طرف سے بدکاریوں پر ڈرانے والا ہوں اور نیکیوں پر خوش خبری سنانے والا ہوں اور دوم درجہ بعد ایمان اور توحید کے یہ حکم ہے کہ اپنے رب کے سامنے گناہوں کا اقرار کر کے اس سے گناہوں پر بخشش مانگا کرو پھر اسی کی طرف جھکے بھی رہو یہ نہیں کہ مطلب کے وقت تو اس کی منت سماجت کرو اور بعد مطلب براری کے منہ پھیر جائو تم اگر اس کے ہو رہو گے تو وہ تم کو ایک وقت مقرر تک عمدہ گذران دے گا یہ تو عام بخشش ہوگی اور ہر ایک اہل فضل کو جس نے زیادہ محنت کی ہوگی اس کی فضیلت کا عوض بھی دے گا اور اگر تم منہ پھیرو گے اور میری راست تعلیم اور سچی ہمدردی نہ مانوں گے تو مجھے تم پر بڑے دن کے عذاب آنے کا خوف ہے یعنی اس عذاب کا خوف ہے جس سے کفار کی ہلاکت ہوتی رہی ہے کیونکہ اللہ کی طرف تم سب نے پھرنا ہے اگر اس سے تمہارا معاملہ اور نیاز بندگی کی نسبت درست نہ ہوئی تو پھر تمہاری کسی طرح خیر نہیں کیونکہ ہم بندے تو سب طرح سے عاجز ہیں اور وہ (اللہ) سب چیزوں پر قادر اور توانا ہے باوجود اس نسبت قوت اور ضعف کے جو اللہ تعالیٰ اور بندوں میں ہے جس سے کوئی دانا انکار نہیں کرسکتا یہ لوگ اس سے ہٹے رہ کر زندگی گذارنا چاہتے ہیں سنو ! یہ لوگ قرآن سننے سے اپنے سینے پھیرتے ہیں اور متمردانہ زندگی میں چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے چھپ جائیں یعنی گناہ کے کام کرتے ہوئے چھپ جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم کو نہ دیکھے کیسی جہالت کی بات ہے آگاہ رہو اللہ تعالیٰ سے کسی طرح چھپ نہیں سکتے وہ تو مخلوق کے ذرہ ذرہ حال سے واقف ہے عام احوال تو بجائے خود رہے جب یہ رات کو سوتے وقت کپڑے اوڑھتے ہیں اس وقت بھی لحافوں کے اندر جو کچھ دلوں میں چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں یعنی جو حرکات جسمانیہ کرتے ہیں وہ سب کچھ جانتا ہے بلکہ وہ سینوں کے اندر کے حالات سے بھی آگاہ ہے خواہ وہ ان کے سینوں میں ابھی تک آئے بھی نہ ہوں وسعت علم کے علاوہ قدرت اور کمال یہ ہے کہ جو جاندار دنیا میں ہیں سب کا رزق اللہ کے ذمے ہے وہی ان سب کے رزق کا متکفل ہے ان کے لئے رزق پیدا کرتا ہے اور ان کا مستقل ٹھکانہ اور عارضی مقام دونوں وہ جانتا ہے یہ سب کچھ کتاب مبین یعنی اس کے روشن علم میں آچکا ہے اور سنو ! وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دن کی مدت میں پیدا کیا اور ان موجودہ آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش سے پہلے اس کی حکومت پانی پر تھی یعنی آسمانوں اور زمینوں کے صورت پذیر ہونے سے پہلے پانی تھا اس پر بھی اللہ تعالیٰ ہی کی حکومت تھی اور اب بھی ہے پھر تم کو پیدا کیا تاکہ تم میں سے اچھے کام کرنے والوں کو ظاہر کرے اور بعدموت دوسری زندگی میں ان اعمال کا پھل بخشے مگر یہ تیرے مخالف ایسے گمراہ ہیں کہ کسی کی سنتے ہی نہیں اور اگر تو کہتا ہے کہ تم مرنے کے بعد قبروں سے اٹھائے جائو گے تو کافر لوگ فوراً بول اٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح دیوانہ پن ہے گویا کسی نے اس نبی کو (معاذ اللہ) جادو کردیا ہے اسی کے اثر سے ایسی بہکی بہکی باتیں کرتا ہے پھر طرفہ تر یہ کہ ایسی بے ہودہ گوئی کی سزا بھی دنیا ہی میں فوراً چاہتے ہیں اور اگر ہم تھوڑی سی مدت تک عذاب کو ان سے ہٹائے رکھتے ہیں تو بجائے عافیت طلبی اور شکر گذاری کے کہتے ہیں کہ کس چیز نے اس عذاب کو ہم سے روک رکھا ہے کیوں جلد نہیں آتا جس سے غرض ان کی یہ ہوتی ہے کہ اگر یہ نبی سچا ہوتا تو اس کی تکذیب پر اللہ تعالیٰ ہم سے مواخذہ کرتا؟ لیکن سن رکھو ! کہ جس روز وہ عذاب ان پر آ نازل ہوا تو وہ ان سے پھرنے کا نہیں ان کو پیس ڈالے گا اور جس امر کی ہنسی اڑا رہے ہیں وہ ان پر گھیرا ڈال لے گا ایسا کہ کوئی بھی ان سے نہ بچ سکے گا انسان کی طبیعت ہی کچھ ایسی کمزور ہے کہ آرام ہو تو مغرور ہے اور اگر ہم اس نالائق انسان کو اپنی طرف سے مہربانی کا حصہ دے کر پھر اس سے وہ نعمت چھین لیتے ہیں تو بجائے اس کے کہ یہ خیال کرے کہ جس اللہ تعالیٰ نے پہلے مہربانی کی تھی اس سے اب بھی امید رکھنی چاہئے الٹا سخت ناامید ہوجاتا ہے اور گھبراہٹ میں واویلا کرنے لگ جاتا ہے اور اگر بعد تکلیف کے جو اس کو ایسی چمٹ رہی تھی کہ گویا اس کے گلے کا ہار ہو رہی تھی کسی قدر راحت بخشتے ہیں تو زوال نعمت سے بے فکر ہو کر کہتا ہے کہ سابقہ تکلیفات مجھ سے چلی گئیں گویا اب وہ خود مختار ہے کوئی بھی اس کی نعمتوں کو اس سے چھین اور تکلیف پہنچا نہیں سکتا بے شک وہ نالائق تھوڑی سی بات پر بڑا اترانے والا شیخی بھگارنے والا ہے گو یہ بدخصلت اس کی فطرت اور طنتپ میں تو نہیں لیکن بدصحبت کا اثر اس میں ایسا جاگیر ہو رہا ہے کہ مثل طبعی اثر کے ہوچکا ہے مگر جو لوگ تکلیفوں پر صبر کرتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ مالک الملک کے قبضے میں ہے تنگی گھبراتے نہیں فراخی میں اتراتے نہیں غرض ان کا خیال ہوتا ہے کہ سب کام اپنے کرنے تقدیر کے حوالے نزدیک عارفوں کے تدبیر ہے تو یہ ہے انہیں لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں سے بخشش اور بڑا اجر ہے یہی راہ راست ہے کوئی مانے یا نہ مانے تو کہنے سے مت رکا کر یہ نہ مانیں گے تو تیرا کیا لیں گے تو جو ان سے شائد تو بعض احکام الٰہیہ جو تیری طرف نازل ہوئے ہیں ان کی تبلیغ چھوڑنے کو ہے؟ اور شائد اس وجہ سے تو دل تنگ ہوتا ہے جو تجھ پر طعنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں اگر یہ اللہ کا رسول ہے تو کیوں نہیں اس کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سے خزانہ ملایا اس کے ہمراہ فرشتہ کیوں نہیں آیا جو بازاروں میں اس کے ساتھ چلتا ہوا اس کی تصدیق کرتا اور لوگوں کو کہتا پھرتا کہ یہ اللہ کا نبی ہے اس کو مان لو کیا تو ایسے ہی واہی تباہی اعتراضوں کے سننے سے ملول خاطر ہوتا ہے اور یہ نہیں جانتا ہے مہ نور مے فشاندو سگ بانگ می زند تجھے اس سے کیا تو تو صرف عذاب الٰہی سے ڈرانے والا ہے اور اللہ کو ہر چیز کا اختیار ہے جو چاہے کرسکتا ہے خزانہ اور فرشتہ تو کیا ہے وہ اس سے بھی بڑے بڑے کاموں پر قدرت رکھتا ہے کیا اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے اپنے پاس سے قرآن بنا لیا ہے تو ان کے جواب میں کہہ چونکہ تم بھی میرے ہم جنس اور ہم زبان ہو دس سورتیں جن میں سے ہر ایک سورت ایک جواب مضمون کے برابر ہو اس قسم کی بنائی ہوئی لے آئو اور اس بنانے میں اللہ کے سوا جس کو بلا سکو مدد کے لئے بلا لو غرض سب مل جل کر بھی کوشش کرلو اگر تم اس دعویٰ میں سچے ہو کہ یہ قرآن آدمی کا بنایا ہوا ہے پھر اگر وہ تمہارا کہا نہ کرسکیں یقین بھی یہی ہے کہ ہرگز نہ کرسکیں گے تو تم جان لو کہ یہ کتاب قرآن شریف اللہ کے علم سے اترا ہے یعنی اس میں اس کی معرفت اور علم مذکور ہے اور یہ بھی جان لو کہ اس اللہ کے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں جو اس کو سمجھ کر پڑھتے ہیں ان کو معرفت اللہ کریم سے وافر حصہ ملتا ہے پس کیا تم مشرکو ! اس قرآن کے تابعدار بنو گے اور کب تک دنیا میں ایک دوسرے کا منہ تاکتے رہو گے کہ فلاں شخص مسلمان ہو تو ہم بھی ہوں ورنہ دنیاوی نقصان کا خطرہ ہی سنو ! جو لوگ اس دنیا کی زندگی اور اسی کی زیب و زینت اور آرائش چاہتے ہیں اور اسی کے لئے تمام وقت صرف کردیتے ہیں ان کے کاموں کا بدلہ ہم ان کو اسی دنیا میں دے دیا کرتے ہیں اور اس میں ان کو کسی طرح کا نقصان نہیں ہوتا جس قسم کی کوشش کوئی کرتا ہے بی اے بننے کو ہو یا ایم اے کی تجارت کی ہو یا وکالت کی سب کی کوششوں کو اللہ تعالیٰ مناسب طریق سے کامیاب کردیتا ہے البتہ چونکہ دنیا میں منہمک ہو کر آخرت سے غافل ہوجاتے ہیں اس لئے اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ آخرت میں ان کو بجز دوزـخ کی آگ کے کچھ نصیب نہ ہوگا اور جو کچھ یہ دنیا میں کرچکے ہیں اور اس وقت کر رہے ہیں سب کا سب اکارت اور ضائع اور باطل ہونے کو ہے کیونکر ضائع نہ ہوگا جب کہ یہ لوگ الٹی چال چلتے ہیں۔ کیا جو کوئی اپنے پروردگار کی اتاری ہوئی ہدایت پر کار بند ہو اور خود اس کے نفس سے اس ہدایت کی تقویت کو ایک شاہد بھی موید ہو یعنی وہ اللہ داد طبیعت سلیم بھی رکھتا ہو اور اس موجودہ ہدایت سے پہلے اتری ہوئی حضرت موسیٰ کی کتاب تورات جو اپنے وقت میں امام اور رحمت تھی یہی اس کی تائید کرتی ہو یعنی وہ بھی یہی مضمون بتلاتی ہو کہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہوئی سب قسم کے فوائد اور سب نیکیوں کی بنا ہے کیا یہ اور مذکور الصدر دنیا دار ایک سے ہیں ہرگز نہیں جن میں یہ اوصاف مذکور پائے جاتے ہیں حقیقتاً قرآن پر انہی کو ایمان ہے ورنہ بہت سے لا الہ الا اللہ پڑھنے والے اور قرآن کی تلاوت کرنے والے ایسے بھی ہیں جن کی غفلت اور بے پروائی کی وجہ سے خود قرآن ان پر لعنت کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صرف لفاظی کام نہیں آتی بلکہ عمل اور جو کوئی ان گروہوں میں سے اس سے انکاری ہوگا آگ اسی کا ٹھکانہ ہے پس تو اس امر سے شک میں نہ ہوجیو بے شک یہ قرآن حقانی تعلیم تیرے رب کے ہاں سے اتری ہے لیکن بہت سے لوگ نہیں مانتے جہالت سے جھوٹی باتوں اور بہتان بازیوں کے پیچھے جاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھیں یعنی الہام یا وحی کے مدعی ہوں یا کوئی ایسی تعلیم اللہ تعالیٰ کے نام سے بتائیں جس کا اس نے ارشاد نہ کیا ہو ان سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے برے حال سے پیش کئے جاویں گے اور اس وقت کے گواہ یعنی انبیاء ان کو پہچان کر کہیں گے کہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ باندھا تھا اور اس جھوٹ کی بدولت اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظالم بنے تھے پس سنو ! ان ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے جو جہالت میں اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکتے تھے اور اس راہ میں محض ضد اور عناد سے کجی سوچتے رہتے تھے اور آخرت یعنی اعمال کی جزا و سزا سے منکر تھے مگر چونکہ یہ لوگ دنیا میں اللہ تعالیٰ کو اجرائِ احکام میں عاجز نہیں کرسکتے بلکہ خود اس کے آگے عاجز تھے اور اللہ کے سوا ان کا کوئی بھی متولی نہ تھا اس لئے کچھ بھی کامیاب نہ ہوئے بلکہ الٹے مصیبت میں مبتلا ہوئے کہ عوام کفار سے ان کو دوہرا عذاب ہوگا کیونکہ وہ ایسے متکبر اور حق گوئوں کے دشمن تھے کہ نہ حق بات سن سکتے تھے اور نہ حق گوئوں کو دیکھ سکتے تھے اپنے ہی حسد میں جلے بھنے جاتے تھے انہیں لوگوں نے اپنا نقصان آپ کیا ہے اور جو کچھ دنیا میں افترا پردازیاں از قسم شرک وغیرہ کرتے ہیں سب کو بھول جائیں گے کچھ شک نہیں یہی لوگ آخرت کی منڈی میں نقصان اٹھائیں گے بخلاف اس کے جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک یعنی ادائے حقوق العباد اللہ کریم کی عبادت اور تادیہ حقوق یعنی مخلوق سے نیک سلوک کرتے رہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنے پروردگار کے ہو رہے ہر بات میں ان کا یہ اصول رہا کہ سپردم بتو مایۂ خویش را تودانی حساب کم و بیش را یہی لوگ جنت والے ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ان دونوں فریقوں یعنی اللہ والوں اور دنیا داروں کی مثال اندھے بہرے اور سوآنکھے اور سننے والے کی سی ہے کہ قسم اول ہر لذت سے جو دیکھنے سننے سے تعلق رکھتی ہے محروم ہیں یعنی زندگی ان پر دوبھر ہے بخلاف قسم ثانی کے کہ ہر طرح کے عیش و عشرت اور لذات سے متمتع ہیں کیا یہ دونوں اندھے اور سوانکھے برابر ہیں ہرگز نہیں پھر تمہیں کیا ہوا کہ تم سمجھتے نہیں ہو کہ جو لوگ اعلیٰ حاکم کے دربار میں مقرر ہوں مجرموں کی ان کے برابر کیونکر عزت ہوسکتی ہے اسی امر کے ذہن نشین کرنے کو ہم نے خاندان نبوت قائم کیا۔