وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ ۚ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ
(یہ ہے ابراہیم کا طریقہ) اور ان لوگوں کے سوا جنہوں نے اپنے آپ کو نادانی و جہالت کے حوالے کردیا ہے کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے منہ پھیر سکتا ہے؟ اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے دنیا میں بھی اسے برگزیدگی کے لیے چن لیا اور آخرت میں بھی اس کی جگہ نیک انسانوں کے زمرے میں ہوگی
(130۔141)۔ بتلائو تو ایسے بھلے آدمی ابراہیم ( علیہ السلام) کی راہ سے سوا احمقوں کے کون روگردان ہوگا حالانکہ ہم نے اس کو تمام دنیا کے لوگوں میں پسند کیا ہے اور آخرت میں بھی وہ نیک بندوں کی جماعت میں ہوگا اس کی بزرگی میں شک ہو تو یاد کرو جب اللہ نے اسے کہا کہ میری تابعداری کرو وہ فوراً بو لا کہ میں دست بستہ حاضر اللہ ربّ العٰلمین کا بڑی مدّت سے تابعدار ہوں (شان نزول :۔ ع (ومن یرغب) عبداللہ بن سلام (رض) نے اپنے دو بھتیجوں کو کہا کہ تم بھی مسلمان ہوجائو۔ ایک تو ان میں سے ہوگیا دوسرے نے انکار کیا ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی (معالم) بعد اس کے پھر ہمیشہ تک ایسا ہی اخلاص مند رہا اور ابراہیم ( علیہ السلام) نے اور اس کی تاثیر صحبت سے اس کے پو تے یعقوب ( علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں سے وصیت کی کہ اے میرے بیٹو ! اللہ نے تمہارے لئے یہی توحید کا دین پسند کیا ہے پس تم مرتے دم تک اسی پر رہیو بلکہ اس امر کے تو تم بھی گواہ ہو یعقوب ( علیہ السلام) نے فوت ہوتے وقت اپنے بیٹوں بطور نصیحت اور آز مائش کہا تھا کہ میرے بعد کس کی عبادت کرو گے جس سے اس کی غرض ہی تھی کہ ان کے منہ سے نکلوا لوں کہ صرف اللہ کی ہی عبادت کریں گے چنانچہ انہوں نے یہی اس کے منشاء کے مطابق ہی کہا کہ ہم اکیلے اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کریں گے جو تیرا اور تیرے باپ دادا ابراہیم ( علیہ السلام) اور اسمٰعیل اور اسحق کا اللہ تعالیٰ ہے اور ہم تو اب بھی اس کے فرمانبردار ہیں (شان نزول :۔ ١ ؎ (ام کنتم شھدائ) یہودیوں نے کہا کہ حضرت یعقوب نے فوت ہوتے وقت اپنے بیٹوں کو یہودیت کے قائم رکھنے کی وصیت کی ہوئی ہے آپ ہم کو یہودیت سے کیوں بدلاتے ہیں؟ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ١٢ معالم) یہ ایک جماعت کسیا بابرکت تھی جو اپنے وقت میں گزر گئی صرف زبانی جمع خرچ کرنے والوں کا ان سے کیا علاقہ ان کی کمائی ان کو ہوگی تمہاری کمائی تم کو ہے تمہیں ان کے کیے سے سوال نہ ہوگا نہ ان کو تمہارے کیے کی پوچھ۔ تم ان سے علیحدہ وہ تم سے جداتعجب ہے کہ با وجود زبانی جمع خرچ کے۔ یہ لوگ اپنے ہی کو ہدایت پر جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری طرح یہودی یا عیسائی ہوجاؤ اس سے ہدایت یاب ہوجاؤ گے گویا ان کے نزدیک سوائے یہودیت کے کوئی طریق درست نہیں تو کہہ دے کہ تمہاے زئلیات تو ہم ہرگز نہ سنیں گے اور نہ ان پر عمل کریں گے بلکہ ہم تو حضرت ابراہیم یک رخہ کے پیچھے چلیں گے اور اسی کی راہ ہم نے پکڑ رکھی ہے۔ جو تمام نفسانی خواہشوں سے پاک وصاف ہو کر اللہ کا بندہ ہوگیا تھا اور وہ مشرک نہ تھا۔ (شان نزول :۔ (قالو اکونوا ھودا) یہود مدینہ اور نصاریٰ نجران دونو مسلمانوں سے آکر جھگڑنے لگے اور ہر ایک اپنے مذہب کی طرف بلاتا تھا ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ١٢ ف) جیسے کہ تم ہو۔ پس ہم تمہارے پیچھے چل کر مشرک بننا نہیں چاہتے۔ اس تمہارے کہنے سے اگر لوگوں میں یہ مشہور کریں کہ مسلمان توریت انجیل کو اللہ کا کلام نہیں مانتے تو تم بلند آواز سے کہہ دو کہ یہ الزام ہم پر غلط ہے سب سے پہلے ہم اللہ واحد کو مانتے ہیں اور اس کتاب کو مانتے ہیں جو ہماری طرف اتری اور اس کو بھی مانتے ہیں جو حضرت ابراہیم اور اس کے بڑے بیٹے اسمٰعیل اور چھوٹے بیٹے اسحاق اور اس کے پوتے یعقوب اسرئیل اور اس کی اولاد علیہم السلام کی طرف اللہ کے ہاں سے اتاری گئی اور خاص کر اس کلام کو مانتے ہیں جو کچھ حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کو اللہ کے ہاں سے زندگی میں ملا تھا اور جو عموماً سب نبیوں کو اللہ کی طرف سے ملا ہم سب کو تسلیم کرتے ہیں اور بدل وجان قبول کرتے ہیں بڑی بات ہم میں یہ ہے کہ اللہ کے نبیوں میں تفریق نہیں کرتے کہ بعض کو مانیں اور بعض سے انکاری ہوں جیسے تم حضرت مسیح اور سیدالانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منکر ہو اور ہم میں بفضلہ تعالیٰ یہ عیب بھی نہیں کہ ہم تمہاری طرح مطلب کے وقت اللہ کے حکموں پر غیروں کو ترجیح دیں بلکہ ہم تو صرف اسی کے تابعدار ہیں پس بعد اس اظہار صریح کے اگر وہ تمھاری مانی ہوئی کتاب یعنی قرآن مجید کو مان لیں تو جان لوکہ ہدایت پر آگئے اور اگر حسب دستور قدیم اعراض کریں تو معلوم کرو کہ وہ سخت ضدی ہیں اگر وہ تجھ سے (اے رسول) کچھ اذیت کا قصد کریں تو پس اللہ تعالیٰ تجھ کو ان کی شرارت سے بچائے گا اس لئے کہ وہ تیرے مخالفوں کی سرگوشیاں اور باہمی مشورے سنتا ہے اور ان کے دلی عنادوں کو بھی جانتا ہے ان کا یہ بھی ایک داؤ ہے کہ اپنے مذہب میں لاتے ہوئے رنگ کے چھینٹے ڈالتے ہیں اور اس کو الٰہی رنگ کہتے ہیں اور عوام لوگوں کو اس دھوکہ سے کہ آؤ اس سچے رنگ سے اپنے کو رنگو دام میں لاتے ہیں۔ سوئم ان کے جواب میں کہدو کہ تمہارا رنگ تو پھیکا بلکہ سرے سے کچھ بھی نہیں اصل اللہ کا رنگ ہم نے اختیار کیا ہے یعنی اس کے خالص بندے بن چکے ہیں۔ بھلا بتلاؤ تو اللہ سے کس کا رنگ اچھا ہے؟ تمہاری طرح ہم زبانی جمع خرچ نہیں رکھتے۔ بلکہ ہم تو دل وجان سے اللہ کے حکموں کو مانتے ہیں اور ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ اب بھی اگر یہ اہل کتاب باز نہ آئیں اور اے رسول ! تیری نبوت کو اس وجہ سے جھٹلاویں کہ تو نبی اسمٰعیل (علیہ السلام) سے ہے اور ان کا خیال ہے کہ نبوت خاصہ بنی اسرائیل کا ہے۔ تو تو ان سے کہہ دے کیا تم ہم سے اللہ کے فضل اور بخشش کے بارے میں جھگڑتے ہو۔ کیا نبوت اپنا ہی حق جانتے ہو اور ہم کو اس سے علیحدہ ہی رکھنا چاہتے ہو۔ بھلا تم میں کون سی ترجیح ہے حالانکہ بندگی میں ہم تم سب برابر ہیں۔ اور وہ ہمار اور تمہارا سب کا مالک ہے اور اعمال میں بھی تم کو کسی قسم کی رعائیت نہیں کہ اوروں کی کمائی تم کو مل جائے بلکہ ہمارے اعمال ہم کو اور تمہارے اعمال تم کو جو کرے وہ بھرے ہاں اگر غور کیا جائے تو قابل ترجیح بات ہم میں ہے کیونکہ ہم اس کے سب احکام کو مانتے ہیں۔ اور ہم دل سے اسی کے اخلاص مند ہیں نہ کہ تمہاری طرح مطلب کے یار۔ غرض ہو تو اللہ کے بن گئے۔ جب مطلب حاصل ہوا تو پھر کون۔ یہ بھی تو ان سے پوچھو کہ کیا تم بجائے چھوڑنے اس واہیات خیالات کے یہ کہتے ہو کہ حضرت ابراہیم اور اس کے دونوں بیٹے اور پوتا اسمٰعیل او اسحاق اور یعقوب علیہم السلام اور اس کی سب اولاد تمہاری طرح یہودی یا عیسائی تھے۔ تو اے رسول ! ان سے کہہ دے بھلا کیونکر ہم تمہاری باتیں مانیں کہ وہ ایسے تھے حالانکہ ہم کو اللہ نے پختہ طور سے بتلایا ہے کہ ان بزرگوں کی یہ روش نہ تھی جو تم نے نکال رکھی ہے کیا تم خوب جانتے ہو یا اللہ خوب جانتا ہے۔ جی میں تو یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ حضرات ان جیسے نہ تھے مگر لوگوں کی شرم سے چھپاتے میں اور نہیں جانتے کہ یہ بھی ایک قسم کی شہادت ہے اور کون زیادہ ظالم ہے اس شخص سے جو اپنے پاس سے اللہ کی بتائی ہوئی شہادت کو چھپائے۔ یقینا جانو کہ اللہ تم کو اس کتمان پر مواخزہ کرے گا۔ اس لئے کہ اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں۔ اصل پوچھو تو تم یہودو نصارٰی کو ان بزرگوں سے کیا مطلب؟ یہ ایک جماعت پسندیدہ تھی جو اپنے اپنے وقت پر گزرگئی ان کی کمائی ان کو ہے اور تمہاری تم کو اور تم ان کے کئے سے نہ پوچھے جاؤ گے اور نہ وہ تمہارے کردار سے۔ تم ان سے اجنبی وہ تم سے بیگانے پھر بار بار ان کا نام لینے سے کیا فائدہ۔ جب تک کہ ان کی تابعداری نہ ہو۔