سورة التوبہ - آیت 17

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَىٰ أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ ۚ أُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مشرکوں کو اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں ایسی حالت میں کہ وہ خود اپنے کفر کا اعتراف کر رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے سارے عمل اکارت گئے اور وہ عذاب آتش میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(17۔24) کیا تم جو جہاد اور اعلاء کلمۃ اللہ سے غافل اور سست ہو کر بٹھگ رہے ہو تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم اسی طرح اور انہی اعمال پر چھوڑے جائو گے ابھی تو اللہ نے تم میں سے مجاہدوں کو اور جنہوں نے اللہ اور رسول کے سوا کسی کو اپنا مخلص دوست نہیں بنایا ممتاز نہیں کیا ایسا کہ لوگ دیکھ لیں کہ یہ مخلص ہیں اور وہ منافق پھر ایسا کیونکر ہوسکتا ہے کہ تم اسی حال پر قانع ہو کر اس تمیز سے غافل رہو اللہ تعالیٰ کو تمہارے سب کام معلوم ہیں اسے اپنے علم حاصل کرنے کو اس تمیز کی کوئی ضرورت نہیں جیسے تم غلطی سے یہ سمجھے بیٹھے ہو مشرکوں کو بھی ایک غلط خیال جم رہا ہے کہ ہم مسجد الحرام کی تعمیر اور آبادی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں سے ہمیں ثواب ملے گا۔ حالانکہ قانون الٰہی میں مشرکوں سے ممکن ہی نہیں کہ جس حالت میں اپنے حق میں کفر کے مقر ہوں اللہ کی مسجدیں آباد کریں کیونکہ مسجدیں خالص توحیدی عبادت کے لئے ہیں اور یہ کام خالص موحدین کا حصہ ہے ان مشرکوں کے تو تمام اعمال ضائع اور بیہودہ ہیں اور جہنم میں ہمیشہ رہیں گے حقیقت میں اللہ کی مسجدوں کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور پچھلے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور خود نماز پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے کیونکہ مسجد کی آبادی یہ ہے کہ اس میں اللہ کی خالص عبادت ہو پس یہی لوگ ہدایت یا بوں سے ہوجائیں گے کیا تم مشرکوں نے حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد الحرام کی ظاہری مرمت کرنے کو ان موحد لوگوں کے کاموں کے برابر سمجھ لیا ہے جو اللہ پر اور پچھلے دن پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں یہ بڑی غلط رائے ہے یہ دونوں قسم کے لوگ اللہ کے پاس برابر نہیں ہوسکتے کیونکہ مسجدوں کا بنانا اور آباد کرنا تو اس لئے ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت ان میں کرے خالصہ عبادت مقصود بالذات ہے اور مرمت مساجد بالعرض ہے پس موحد عابد کے برابر کافر مشرک کیسے ہوسکتا ہے اس لحاظ سے کہ بانیان مساجد موحدوں کو ہر طرح سے نور ایمان سے تازگی ہوتی ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے تعلق دلی لگاتے ہیں کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ یہ دونوں کام برابر کیسے ہوسکتے ہیں وہ ظالم ہیں اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو سمجھ نہیں دیتا کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں نے ایمان لا کر بوقت ضرورت ہجرت کی ہے اور اپنے جان و مال سے اللہ کی راہ میں لڑے اللہ کے ہاں ان کے لئے بہت بڑے درجے ہیں اور سچ پوچھو تو یہی لوگ کامیاب ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت اور خوشنودی اور رہنے کے لئے باغوں کی خوش خبری دیتا ہے ان باغوں میں ان کے لئے دائمی نعمتیں ہیں ہمیشہ ان میں رہیں گے اس سے اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں کمی نہ ہوگی کیونکہ اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے مسلمانو ! اگر ایسی نعمتوں سے متمتع ہونا چاہتے ہو تو علاوہ نیک اعمال اور ترک کفر کے یہ بھی ضرور ہے کہ تمہارے ماں باپ اور بہن بھائی ایمان کے مقابلے کفر کو پسند کریں تو ان سے بھی خلوص مودت نہ رکھو یعنی مذہبی امور میں ان کی ناراضگی کا خیال نہ کیا کرو دنیاوی امور میں ان سے بے شک سلوک کئے جائو ان کی خاطر تواضع بجا لائو لیکن دین میں ان کی اطاعت اور دوستی نہ رکھو جو لوگ تم میں سے ایسے لوگوں سے دوستی نہ رکھو جو لوگ تم میں سے ایسے لوگوں سے دوستی محبت رکھیں گے وہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظالم ٹھہریں گے تو اے نبی ان مسلمانوں سے کہہ دے کہ اگر تمہارے ماں باپ اور بیٹے بیٹیاں اور بھائی بند اور بیوئیں اور کنبے اور برادری کے لوگ اور مال و اسباب جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت اور کاروبار جس کے خسارہ سے تم ڈرتے ہو اور مکانات جن کو رہنے کے لئے تم پسند کرتے ہو یہ سب کچھ تم کو اللہ اور اس کے رسول سے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پسند اور مرغوب ہیں تو خیر صبر کرو جب تک اللہ تعالیٰ تمہاری ہلاکت کے لئے اپنا حکم بھیجے اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ ایسے بدکاروں کو توفیق خیر نہیں دیا کرتا جو ہمیشہ اسی دنیا کے دھندوں میں رہ کر مر جاتے ہیں ایسے لوگوں کے حق میں مولوی روم فرماتے ہیں اہل دنیا کافر ان مطلق اند روز و شب در زق زق و در بق بق اند