بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ
(مسلمانوں) جن مشرکوں کے ساتھ تم نے (صلح و امن کا) معاہدہ کیا تھا اب اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بری الذمہ ہونے کا ان کے لیے اعلان ہے۔
(1۔16) (اس سورت کے شروع میں بسم اللہ نہیں ہے حضرت عثمان (رض) سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے اس لئے یہاں بسم اللہ نہیں لکھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے نہیں سنی تھی۔ ) شان نزول (برآءۃ من اللہ) مشرکین کی بدعہدی کی سزا دینے کو یہ آیت نازل ہوئی ہجرت کے نویں سال آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو اس سورت کی تبلیغ کے لئے امیر الحج کر کے بھیجا تھوڑی دیر بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو پیچھے بھیج دیا صدیق اکبر نے یہ سمجھ کر کہ شائد مجھے کسی خفگی کی وجہ سے معزول فرمایا ہے اس امر کی دریافت کرنے کو حضور نبوی میں حاضر ہو کر سوال کیا کہ حضرت ! کیا میرے حق میں کوئی مخالف حکم نازل ہوا ہے (کہ مجھے معزول کردیا ہے) آپ نے فرمایا نہیں لیکن بات یہ ہے کہ ایسے پاغبم کا پہنچانا حسب دستور عرب میرے قریبی رشتہ داروں کا کام ہے آپ نے ابوبکر سے یہ بھی فرمایا کہ کیا تو اس بات سے راضی نہیں یعنی ہمیشہ کے لئے بے فکر نہیں ہوتا کہ تو ہجرت کی رات غار میں میرا رفیق رہا اور حوض کو ثر پر بھی میرا ساتھی ہوگا ابوبکر (رض) نے عرض کیا ہاں حضرت میں بے شک راضی ہوں پس حضرت ابوبکر صدیق نے لوگوں کو خطبہ سنایا اور حج کے احکام بتلائے معالم۔ (صدیقوں سے عداوت رکھنے والے غور کریں۔ گل است سعدی و در چشم دشمناں خار است) درد ناک عذاب کی خبر سنا دے مگر یہ ساری سختیاں انہی لوگوں پر ہوں جنہوں نے بدعہدیاں کیں لیکن جن مشرکوں سے تم نے عہد کیا اور انہوں نے اس میں کسی طرح سے کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی تو ان کے وعدوں کو مدت مقررہ تک پورا کرو اور عہد شکنی سے پرہیز کرتے رہو بے شک اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے اور جب حرام کے مہینے گذر جائیں تو (مفسد) مشرکوں کو جن سے تمہارے عہد و پیمان نہیں اور چار مہینے کی مہلت بھی ( جن مہینوں میں کفار پر حملہ کرنا منع ہے یعنی ذیقعدہ۔ ذی الحج۔ محرم۔ رجب۔ ١٢) ان کو نہیں دی گئی ان کو جہاں پائو قتل کرو اور پکڑو اور ان کا محاصرہ کرو اور ان کے پکڑنے کو ہر گھاٹ میں بیٹھو غرض جس طرح قابو چلے ان کو مقہور کرو پھر اگر وہ شرارت سے باز آویں اور صلح کی طرف جھکیں اور امن کی خواہش کریں یا کفر سے توبہ کریں اور نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو اور آزادی دے دو کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنہار مہربان ہے اور اگر کوئی مشرک یا کافر حالت جنگ میں بھی تم سے امن مانگے اور مسلمانوں کے ملک میں بغرض تجارت یا سیاحت آنا چاہے تو اس کو اس نیت سے پناہ دیا کرو کہ وہ مسلمانوں کے میل و ملاپ سے قرآن سنے پھر جب وہ جانا چاہے تو اس کے امن کی جگہ یعنی اس کے وطن اصلی میں اس کو پہنچا دیا کرو خبردار کوئی اس کو تکلیف اور ایذا نہ پہنچا دے یہ حکم اس لئے ہے کہ وہ لوگ بے علم ہیں خود تو اس قدر علم نہیں رکھتے نہ شوق ہے کہ تحقیق کریں شائد سنے سنائے مسلمانوں کے میل جول ہی سے ان کو فائدہ ہو اصل پوچھو تو اللہ اور رسول کے نزدیک ان مشرکوں کے وعدوں کا کیونکر اعتبار ہو عہد شکنی میں سب ایک سے ہیں مگر خیر جن لوگوں سے تم نے مسجد الحرام کے پاس یعنی کعبہ کے میدان میں وعدہ کیا تھا جب تک وہ تم سے نباہیں تم بھی ان سے نبا ہو اور عہد شکنی سے پرہیز کرو اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے کیونکر ان مشرکوں کا اعتبار ہو جب کہ ان کا وتیرہ ہی یہ ہے کہ اگر تم پر غلبہ پائیں تو نہ تمہارے رشتہ کا لحاظ کریں اور نہ عہد و پیمان کا فوراً گزند رسانی میں سبقت کرتے ہیں یہ تو صرف منہ کی باتوں سے تم کو راضی کرنا چاہتے ہیں اور دل میں اس صلح سے انکاری ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ تمہارے مذہب سے سخت بیزار اور نیز بہت سے ان میں سے بدکار و بد عہد بھی ہیں ان کو پروا نہیں کہ بد عہدی کرنی بری چیز ہے ہر ایک مذہب میں مذموم سمجھی گئی ہے مگر ان کو نہ تو اپنے مذہب سے غرض ہے نہ اسلام سے اللہ تعالیٰ کے حکموں کو دنیا کے چند پیسوں کی لالچ میں کھو کر لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکتے ہیں کچھ شک نہیں کہ یہ لوگ بہت ہی برے کام کرتے ہیں کیسے غضب کی بات ہے کہ مسلمان کے حق میں نہ تو ان کو رشتہ کا لحاظ ہے نہ وعدہ کی پابندی بے شک یہی زیادتی کرنے والے ہیں مگر چونکہ ہمارے ہاں بخل نہیں بلکہ ہر ایک کے لئے در فیض کشادہ ہے پس اگر یہ لوگ بھی توبہ کر جائیں اور نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں ان سے ویسے ہی ملو جیسے تم مسلمانوں سے ملتے ہو بالکل کسی طرح کا رنج یا کدورت نہ رکھو اور علم داروں کے لئے ہم اپنے احکام تفصیل سے بیان کرتے ہیں انہیں کو ان سے فائدہ ہوتا ہے اور اگر یہ لوگ عہد کرنے کے بعد اپنے وعدوں کو توڑ دیں اور ان شرائط کو جن پر مدار صلح ہے پورا نہ کریں مثلاً توہین انبیا یا مذمت اسلام نہ کرنے پر اگر صلح ہے تو اس کا لحاظ نہ کریں اور تمہارے دین اسلام پر لعن طعن شروع کریں نہ بطور تحقیق مذہب بلکہ بطور استہزار سوالات کریں اور ٹھٹھے اڑائیں تو سب سے پہلے کفر کے اماموں اور فساد کے سرغنوں کے لڑیو اب ان کا کوئی عہد قابل لحاظ نہ ہوگا بس اس وقت خوب مارو تاکہ اپنی شرارت سے باز آئیں مسلمانو ! تمہیں وعدہ کی پابندی تو ضروری ہے لیکن کیا تم ان لوگوں سے بھی نہیں لڑو گے جنہوں نے اپنے وعدوں کو توڑ ڈالا اور اس سے پہلے تمہارے رسول کو وطن مالوف مکہ معظمہ سے نکالنے کا قصد کیا اور تم سے ابتدا بھی انہوں ہی نے کی تھی تم پھر بھی ان کو معاہد سمجھتے ہو یا کیا ان سے ڈرتے ہو اگر ڈرتے ہو تو بڑے بزدل ہو اللہ سے ڈرو تو زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس کے قبضہ اختیار میں سب کچھ ہے اگر ایماندار ہو تو ان سے نہ ڈرو بلکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور ان سے بدعہدوں سے خوب لڑو اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں سے ان کو عذاب دے گا اور ان کو ذلیل کرے گا اور تم کو ان پر فتح دے گا اور مسلمانوں کے سینوں کو ان کے جوش سے ٹھنڈا کرے گا اور تم کو ان پر فتح دے گا اور مسلمانوں کے سینوں کو ان کے جوش سے ٹھنڈا کرے گا اور ان کے دلوں کا جوش جو کافروں کی بدعہدیوں سے بھرا ہوا ہے دور کر دے گا اور علاوہ اس کے جس پر چاہے گا رحم کرے گا یعنی جو توبہ کے قابل ہوگا اس کو توبہ کی توفیق دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ سب کے حال کو جاننے والا بڑا باحکمت ہے