وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
یاد رکھو اہل کتاب میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو چاہتے ہیں، تمہیں ایمان کے بعد پھر کفر کی طرف لوٹا دیں، اور اگرچہ ان پر سچائی ظاہر ہوچکی ہے لیکن پھر اس حسد کی وجہ سے جس کی جلن ان کے اندر ہے، پسند نہیں کرتے کہ تم راہ حق میں ثابت قدم رہو۔ پس چاہیے کہ (ان سے لڑنے جھگرنے میں اپنا وقت ضائع نہ کرو، اور) عفو و درگزر سے کام لو۔ یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ ظاہر ہوجائے (اور وہ حق کو فتح مند کرکے بتلا دے کہ کون حق پر تھا اس کس کی جگہ باطل پرستی کی جگہ تھی) بلاشبہ وہ ہر بات پر قادر ہے
تعجب ہے کہ تم لوگ ایسے زبر دست مولا کے تابع فرمان نہیں ہوتے ہو بلکہ چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے جو مولا نے محض تمہاری ہدائت کے لئے بھیجا ہے ایسے سوال کر کے وقت کھویا کرو۔ جیسے کہ پہلے حضرت موسیٰ سے کیے گئے تھے کہ کفار کے بتوں کو دیکھ کر کہ بنی اسرائیل جھٹ بول اٹھے تھے کہ اے موسیٰ ہمارے لئے بھی کوئی اللہ بنا دے جیسا کہ ان کے لئے ہیں۔ اور یہ نہ سمجھے کہ ہم تو انہی بتوں کو چھوڑکر اب اہل توحید ہوئے ہیں اور یہ عام دستور ہے کہ جو شخص کفر کو ایمان سے بدلے یعنی موّحد بن کر پھر مشرک بنے تو جان لو کہ وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا کیا مسلمانو ! یہ سن کر بھی تم انہیں کتاب والوں کی چال چلوگے ؟ حالانکہ قطع نظر ان کی ذاتی خباثت کے تمہارے حق میں بھی خیر نہیں چاہتے بلکہ اکثر اہل کتاب بعد ظاہر ہونے حق بات کے بھی محض اپنے حسد سے یہی چاہتے ہیں کہ بعد مسلمان ہونے کے بھی تم کو کافر بنادیں پس ایسے لوگوں کا علاج تو یہ ہے کہ بالکل ہی انہیں چھوڑ دو اور ان کا خیال بھی نہ لائو یہاں تک کہ اللہ کا حکم یعنی اس کی مدد تم کو پہنچے اور تمہارا ہی بول بالا ہو یہ تمہارے حاسد حسد سے مرتے رہیں۔ ہاں اللہ سے ہر وقت بھلائی کی امید رکھو اس لئے کہ اللہ ہر کام پر قدرت رکھتا ہے ایسے کام تو اس کے ہاں کچھ ان ہوئے نہیں ہیں شان نزول : مشرکوں کا ایک درخت تھا جس کا نام تھا ذات انواط وہ اس کی پوجا کرتے تھے ان کو دیکھ کر بعض سادہ لوح مسلمانوں نے بھی آنحضرت سے سوال کیا کہ ہمارے لئے بھی ایک ذات انواط مقرر کیجئے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر کبیر)