هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا ۖ فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ ۖ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
وہی (تمہارا پروردگار) ہے جس نے اکیلی جان سے تمہیں پیدا کیا (یعنی تمہارے قبیلوں اور گروہوں کا مورث اعلی ایک فرد واحد تھا) اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنا دیا (یعنی مرد ہی کی نسل سے عورت بھی پیدا ہوتی ہے) تاکہ وہ اس کی رفاقت میں چین پائے، پھر جب ایسا ہوتا ہے کہ مرد عورت کی طرف ملتفت ہوا (١) تو عورت کو حمل رہ جاتا ہے۔ پہلے حمل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے اور وہ وقت گزار دیتی ہے، پھر جب بوجھل ہوجاتی ہے (اور وہ وضع حمل کا وقت قریب آلگتا ہے) تو مرد اور عورت دونوں اللہ کے حضور دعا مانگتے ہیں کہ ان کا پرورش کرنے والا ہے : خدایا ! ہم دونوں تیرے شکر گزار ہوں گے اگر ہمیں ایک تندرست بچہ عطا فرما دے۔
(189۔206) اگر پوچھو کہ بھئی کس نے بھیجا ہے تو میرا بھیجنے والا وہ معبود برحق ہے جس نے تم کو ایک جان آدم سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کی بیوی بنائی تاکہ وہ اس بیوی کے ساتھ تسلی پاوے چنانچہ ایسا ہی ہوتا ہے پھر جب مرد عورت سے حاجت روائی کرتا ہے تو اس کو ہلکا سا حمل ہوجاتا ہے مگر وہ اتنے حمل سے چلتی پھرتی ہے۔ پھر جب قریب ایام آتے ہیں۔ اور بوجھل ہوتی ہے تو دونوں میاں بیوی اپنے رب تبارک و تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہیں اور گڑگڑاتے ہیں کہ اگر تو ہم کو صحیح سالم بچہ عنایت کرے تو ہم تیرے شکر گذار ہوں مگر پھر جب اللہ تعالیٰ ان کو صحیح سالم بچہ عنایت کرتا ہے تو اس کے دئیے میں ساجھی بنا دیتے ہیں بندوں کی طرف نسبت کرنے لگ جاتے ہیں۔ کوئی پیراں دتا۔ کوئی میراں دتا۔ کوئی سالار بخش۔ کوئی احمد بخش وغیرہ وغیرہ نام رکھ دیتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ دینے دلانے والا کوئی اور ہی ہے جس کی شان ہے یَھَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ اِنَاثًا وَّیَھَبُ لِمَنْ یَشَآئُ الذُّکُوْرَ اَوْ یُزَوِّجُھُمْ ذُکْرَانًا وَّاِنَاثًاوَّیَجْعَلُ مَنْ یَشَآئُ عَقِیْمًا اِنَّہٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ پس اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے بلند ہے اس کی ذات تک شرک کا شائبہ بھی نہیں پہنچتا۔ کیا ان کو یہ بھی شرم نہیں آتی کہ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بناتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ خود مخلوق ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کو پیدا نہ کرتا تو پیدا ہی نہ ہوسکتے اور نہ ان کی وہ مدد کرسکتے ہیں اور نہ اپنے آپ کی اگر ان کو بھی اللہ تعالیٰ کسی بات میں پکڑ لے تو مجال نہیں کہ چوں بھی کر جائیں تم اتنا بھی سمجھ نہیں سکتے کہ اگر تم ان مصنوعی معبودوں کو بغرض ہدایت طلبی بلائو اور دعا مانگو اس آیت کو بعض مفسروں نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے متعلق کیا ہے ایک ضعیف حدیث بھی اس مضمون کے متعلق بیان کرتے ہیں جس کا مضمون یہ ہے کہ حوا جب حاملہ ہوئی تو ان کے پاس شیطان نے آ کر کہا کہ تیرے پیٹ میں جو ہے اس کا نام عبدالحارث رکھنا تجویز کرے تو بچہ صحیح و سالم نکلے گا اور حارث شیطان کا نام ہے چنانچہ حوا نے ایسا ہی کیا۔ اس آیت میں یہ بیان ہے مگر حق یہ ہے کہ یہ آیت بنی آدم کی عام حالت کا نقشہ ہے چنانچہ اس لفظ میں تعالیٰ اللہ تعالیٰ عما یشرکون جمع کا صیغہ لا کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی تصریح کردی ہے کہ یہ عام بنی آدم کی کیفیت کا بیان ہے۔ نتیجہ :۔ اس آیت کا مفہوم ہے کہ آج کل جو اولاد کا نام عبدالنبی یا عبدالرسول یا دیوی دتا یا پیراں دتا رکھتے ہیں یہ شرک ہے۔ (منہ) تو تمہارے حسب منشا نہیں کرسکتے۔ پس نفع رسانی کی حیثیت سے برابر ہے کہ تم ان کو پکارو یا خاموش رہو۔ ہاں پکارنے میں ضرر ضرور تم کو ہوگا۔ کیونکہ اپنی جیسی مخلوق کو بغرض مراد طلبی پکارنا شرک ہے اور اس میں تو شک نہیں کہ جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہو تمہاری طرح کے بندے ہیں پس اگر تم اپنے دعویٰ میں کہ ان کو بھی کچھ ایصال نفع میں اختیار ہے سچے ہو تو ان کو بلائو پھر دیکھیں کہ وہ تمہاری مان بھی لیں کیا تم اتنا بھی نہیں سوچتے کہ وہ تو اپنی اپنی نوبت گذار گئے اور جان بحق تسلیم کرچکے وہ تو ان باتوں میں بھی جن میں بنی آدم باھمی ایک دوسرے کی معمولی کاموں میں دستگیری و فریاد رسی کیا کرتے ہیں بوجہ فوتیدگی کے کچھ نہیں کرسکتے کیا تم دیکھتے ہو کہ ان کے پائوں ہیں جن کے ساتھ وہ چلتے تھے۔ یا ان کے ہاتھ ہیں جن کے ساتھ وہ چیزوں کو پکڑتے تھے یا ان کی آنکھیں ہیں۔ جن کے ساتھ وہ دیکھا کرتے تھے۔ یا ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنا کرتے تھے جب ان کا کوئی جوڑ بھی نہیں رہا بلکہ سب کے سب قبروں میں گل گئے ہیں تو کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھ سکتے کہ جو طاقتیں اللہ تعالیٰ نے زندوں کو ایک دوسرے کی کاربراری کی دی ہوئی تھیں جب وہ بھی ان میں نہ رہیں تو بیرون از طاقت کاموں میں ان سے فریاد رسی اور استمداد کیونکر جائز ہوگی تو اے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان سے صاف کہہ دے کہ اچھا اپنے ساجھیوں اور شریکوں کو بلائو پھر جو کچھ تم سے ہوسکے مجھ پر دائو چلا لو اور مجھے کسی طرح ڈھیل مت دو۔ میں دیکھوں کہ تمہارے مصنوعی معبود میرا کیا کرسکتے ہیں۔ میرا متولی اور کار ساز تو صرف اللہ تعالیٰ ہے جس نے میری طرف کتاب نازل کی ہے اور وہی سب لوگوں کا عموماً اور نیکوکاروں کا خصوصاً متولی ہوا کرتا ہے اور تم جن کو اس کے سوا پکارتے۔ اور ان سے دعائیں مانگتے ہو وہ نہ تو تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے نفسوں کی اور اگر تم ان کو راہ نمائی کے لئے بلائو اور دعا مانگو تو تمہاری سنیں گے بھی نہیں۔ مگر اے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تیرے مخاطب شرک کفر کی بیماری میں ایسے اندھے ہیں کہ تیرے سامنے آ کر کھلی آنکھیں تیری طرف نظر کرتے ہیں اور تو سمجھتا ہے کہ مجھے دیکھ رہے ہیں حالانکہ وہ جیسا چاہئے نہیں دیکھتے۔ متحیرانہ مدہوشانہ نظر کرتے ہیں اور حیران ہیں کہ یہ کیا کہتا ہے تو ان کی دیوانگی اور دیوانہ تحیر کی پرواہ نہ کر بلکہ درگذر کی خوکر اور نیک کام موافق شریعت بتایا کر اور جاہلوں سے علیحدہ رہا کر۔ ان کی کسی جاہلانہ بات کا جواب نہ دے بلکہ شیخ سعدی مرحوم کے قول ” جواب جاہلاں باشد خموشی “ پر عمل کر اور اگر فرضاً شیطان کی طرف سے تجھے کوئی حرکت پہنچے کہ جوش میں آ کر ان کا سامنا کر بیٹھے تو جھٹ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ لیجیو اور اعوذ باللہ تعالیٰ من الشیطن الرجیم واعوذ باللہ تعالیٰ ان اکون من الجاھلین پڑھیو بیشک اللہ تعالیٰ سب کی سنتا اور ہر ایک کی بات کو جانتا ہے یہ ہمیشہ سے طریقہ چلا آیا ہے کہ پرہیزگاروں کو بتقاضاء بشریت جب کوئی حرکت شیطانی سوجھتی ہے تو اسی وقت عذاب الٰہی سے ان کو سوجھ آجاتی ہے تو وہ بینا ہوجاتے ہیں جو گناہ کی ظلمت کا پردہ ان کے دلوں پر آیا ہوتا ہے وہ فوراً اٹھ جاتا ہے اور ان تیرے مخاطبوں کی تو یہ حالت ہے کہ ایک تو یہ خود ہی گئے گذرے ہیں ایسے مردہ دل ہیں کہ کبھی ان کو اللہ تعالیٰ کی عظمت دلوں میں بیٹھی ہی نہیں۔ دوئم ان کے ہم خیال بدصحبتی ایسے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ ہر وقت ان کو گمراھی کی طرف ہی زور سے دھکیلے لئے جاتے ہیں اور ان کی تباہی اور بربادی میں کوئی کمی نہیں کرتے ہاں یہ ہر وقت سمجھاتے رہتے ہیں کہ تیری نہ مانیں بلکہ الٹے مخول ٹھٹھے سے پیش آتے ہیں اور جب تو ان کو ان کے حسب منشاء حکم بتوں کی تعظیم وغیرہ نہیں لا دیتا تو کہتے ہیں کہ تو نے یہ حکم کیوں نہ بنا لیا اپنے پاس سے گھڑ کر دکھا سنا دے تو ان نادانوں سے کہہ دے کہ میں اسی بات کے پیچھے چلتا ہوں جس کی مجھے میرے پروردگار کے ہاں سے اطلاع ملتی ہے تمہارے لئے بھی یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت کی بات اور ہدایت ہے اور ایمانداروں کے لئے تو سراسر رحمت ہے اسی لئے تمہیں حکم ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کرو۔ اور جب بغرض تذکیر اور وعظ تم پر قرآن پڑھا جائے تو اس کو سنا کرو اور چپ ! رہا کرو تاکہ تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحم ہو مشرکین جب قرآن میں بت پرستی اور شرک کی مذمت سنتے تو کہتے تھے اِیْتِ بِقُرْآنٍ غَیْرِ ھٰذَا اَوْ بَدِّلْہٗ۔ یعنی اس قرآن کے سوا اور قرآن لا۔ یا اس کا اتنا حصہ بدل دے ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اٰیۃ کے معنے معجزے کے یہاں ٹھیک نہیں۔ ١٢ (وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ) اس آیت کی تفسیر میں ہم نے یہ لفظ ” بغرض تذکیر اور وعظ“ بڑھا کر ایک بڑے معرکۃ الآرا مسئلہ کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے لکھنے کا پہلے ہمیں خیال نہ تھا بلکہ اس کے لئے کوئی اور مقام تجویز تھا مگر بعض وجوہ پیش آمدہ سے اس مقام پر اس کے لئے یہ حاشیہ تجویز ہوا۔ وہ مسئلہ قرءۃ خلف الامام کا ہے قدیم الایام سے تو یہ مسئلہ اختلاف رکھتا تھا مگر اس زمانہ میں مسلمانوں کی خوش قسمتی سے جہاں اور کلیں خراب ہو رہی ہیں اس میں بھی اختلاف سے مخالفت کی صورت بدل گئی ہے۔ دونوں گروہوں (قائلین اور مانعین) میں اس مسئلہ نے جو اپنا اثر دکھایا ہے۔ وہ ہندی مسلمانوں سے مخفی نہیں۔ اسی مخالفت کی وجہ سے ہمارا طریق عمل تفسیر کے متعلق ہم کو اس تحریر کی اجازت نہ دیتا تھا مگر چونکہ ایک ہی کام کے لئے مختلف نیتیں ہوسکتی ہیں جو اپنا اپنا الگ الگ اثر دکھاتی ہیں۔ اس لئے بہ نیت نیک اپنے نزدیک راجح مذہب کا اظہار کرنا کچھ معیوب نہیں۔ اس مسئلہ کے متعلق ائمہ مجتہدین کے کئی ایک مذہب ہیں شافعیہ اور اہل حدیث کے نزدیک تو فاتحہ خلف الامام پڑھنا فرض ہے جمہور خنفیہ کے نزدیک منع بلکہ حرام ہے بعض ائمہ کے نزدیک سنت۔ حنفیہ جو مطلقاً سری اور جہری دونوں نمازوں میں منع کہتے ہیں ان کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ آیت ہے جس کا مطلب وہ یوں بیان کرتے ہیں کہ جس وقت اور جس گھڑی قرآن شریف پڑھا جائے سننے والے کا فرض ہے کہ اسے کان لگا کر سنے اور خود منہ سے کچھ نہ کہے جیسا کہ فاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا سے مفہوم ہے۔ چونکہ امام نماز میں پڑھتا ہے اس لئے مقتدی کو بحکم آیت موصوفہ کے پڑھنا نہ چاہئے۔ یہ ہے حنفیہ کی دلیل کی مختصر تقریر ہم چاہتے ہیں کہ اس مسئلہ میں اصل اصول سے گفتگو اٹھائیں اور جس نیو پر یہ مسئلہ مبنی ہے اس کی تھوڑی سی تفصیل اور تشریح کر کے پھر اس کی توضیح کریں مگر چونکہ یہ تقریر کسی قدر علمی اصول پر ہوگی اس لئے محض اردو خوانوں سے اگر وہ ان کی سمجھ میں بخوبی نہ آسکے معافی کے خواستگار ہیں تاہم کوشش کریں گے کہ جس طرح سے ہوسکے آسان طرز سے مضمون ادا ہو۔ علمائے اصول ” عام“ کے بارے میں مختلف ہیں کہ وہ اپنے افراد کو قطعی شامل ہوتا ہے یا ظنی جمہور علماء کے نزدیک ظنی اور بعض کے نزدیک قطعی اور یہی مذہب جمہور حنفیہ کا ہے۔ گو بعض حنفیہ کو بھی یہ مسلم نہیں چنانچہ تلویح میں مذکور ہے کہ : وعند جمھور العلماء اثبات الحکم فی جمیع مایتناولہ من الافراد قطعا ویقینا عند مشایخ العراق وعامۃ المتاخرین وظنا عند جمھور الفقہا والمتکلمین وھو مذھب الشافعی والمختار عند مشایخ سمرقند حتی یفید وجوب العمل دون الاعتقاد و یصح تخصیص العام من الکتاب بخبرالواحد والقیاس۔ (تلویخ ص ٤٠) ” عام کا حکم اس کے افراد میں مشائخ عراق اور عامہ متاخرین کے نزدیک یقینی ہے۔ لیکن جمہور فقہاء اور متکلمین کے نزدیک ظنی ہے اور یہی مذہب شافعی کا ہے اور مشائخ سمرقند کا مختار بھی یہی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وجوب عمل کا فائدہ دیتا ہے۔ وجوب علم کا نہیں اور تخصیص کتاب اللہ تعالیٰ کی خبر واحد اور قیاس سے (در صورت ظنی ہونے کے) جائز ہے “ مذکورہ بالا عبارت سے نہ صرف یہی کہ علماء کا اختلاف ” عام“ کے بارے میں معلوم ہوا ہے بلکہ ثمرہ اختلاف بھی واضح ہوا (یعنی جن لوگوں کے نزدیک ” عام“ اپنے مسمیات میں قطعی ہے۔ وہ تو خبر واحد سے اس کی تخصیص قبل تخصیص بالمساوی جائز نہیں جانتے اور جن کے نزدیک ظنی ہے۔ ان کے نزدیک تخصیص بخبر واحد قبل تخصیص بالمساوی جائز ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ تخصیص عام بخبرالواحد کوئی مسئلہ متنازعہ فیہ نہیں بلکہ متنازعہ فیہ براسہ اشتمال عام ہے۔ علماء اصول نے اپنے اپنے دعویٰ کے اثبات کے لئے بہت سے دلائل دئیے ہیں بہتر ہے کہ پہلے ان کے بتلائے ہوئے دلائل بیان کریں بعد ازاں کچھ اپنی طرف سے حسب ضرورت ایزاد کریں کیونکہ الفضل للمتقدم مسلم امر ہے۔ صدر الشریعت صاحب توضیح جن کے بعد ان سے بڑھ کر تو کیا ان کے رتبہ کا بھی اصول دانی میں کوئی پیدا نہ ہوا ہوگا۔ جو اصولوں کے عموماً حنفیوں کے خصوصاً افتخار ہیں اپنے دعویٰ (قطعی اشتمال) کو مدلل کرتے ہیں جن کی مزید توضیح صاحب تلویح کی عبارت میں ہم بتلاتے ہیں : ان اللفظ اذا وضع لمعنی کان ذلک المعنی لازماثابتا بذلک اللفظ عند اطلاقہ حتی یقوم الدلیل علی خلافہ والعموم مما وضع لہ اللفظ فکان لازما قطعا حتی یقوم دلیل المخصوص لفظ جب کسی معنے کے لئے وضح ہوتا ہے تو وہ معنے اس لفظ کو لازم ہوتے ہیں۔ جب تک کوئی دلیل اس کے خلاف کی قائم نہ ہو۔ عموم کے لئے بھی لفظ موضوع ہیں تو عموم بھی اپنے لفظ کو قطعی لازم ہوگا۔ جب تک دلیل خصوص قائم نہ ہوجیسے خاص کا مسمیٰ قطعی ثابت ہوتا ہے جب تک دلیل مجاز قائم نہ ہو “ قائلین بالظن کی طرف سے صاحب تلویح نے یہ دلیل بیان کی ہے : ان کل عام یحتمل التخصیص والتخصیص شائع فیہ کثیر بمعنی ان العام لایخلو عنہ الا قلیلا بمعونۃ القرائن کقولہ تعالیٰ ان اللّٰہ علی کل شیء قدیر وللّٰہ ما فی السموات وما فی الارض حتی صار بمنزلۃ المثل انہ ما من عام الاوقد خص منہ البعض وکفی بھذا دلیلا علی الاحتمال و ھذا بخلاف احتمال الخاص المجاز فانہ لیس بشائع فی الخاص شیوع التخصیص فی العام حتی ینشا عنہ احتمال المجاز فی کل خاص (تلویح ص ٤١) ہر عام احتمال تخصیص کارکھتا ہے اور تخصیص عام طور پر شائع بھی ہے یعنی کوئی عام شاذ و نادر وہ بھی بالقرائن کے سوا تخصیص سے خالی نہیں جیسا قول اللہ تعالیٰ ان اللہ تعالیٰ علی کل شیء قدیر۔ وللہ ما فی السموات وما فی الارض یہاں تک کہ یہ ایک مثل ہے ” کوئی عام ایسا نہ ہوگا جس کی تخصیص نہ ہوئی ہو“ اور احتمال کے لئے اتنی ہی دلیل کافی ہے۔ بخلاف احتمال خاص کے معنے مجازی کے لئے کیونکہ وہ تخصیص کی مثل شائع نہیں تاکہ ہر خاص میں احتمال مجاز پیدا ہوسکے۔ “ قائلین بالظن کی اس دلیل کے علاوہ ہمارے خیال میں یہ ایک دلیل بھی عام کے قطعی نہ ہونے کی قطعی ہے کہ ” عام“ اگر مساوی خاص کے قطعی ہو تو زید کی غیبت جیسی منع ہے عام افراد کی بھی منع ہوتی۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ” زید“ کو جو خاص ایک شخص ہے برا کہے تو شرع میں اس کو غیبت کا گناہ ہے۔ اور حکام مجازی لائیبل (ہتک عزت) قرار دیتے ہیں اور اگر کوئی شخص زید کی ساری قوم یا ہم پیشہ لوگوں کو جن میں زید کا شمول بھی ہے برا کہے تو نہ شرعاً غیبت کا گناہ ہے نہ عرفاً لائیبل کا دعویٰ۔ پس اگر دونوں (عام اور خاص) اپنے مسمیات کے اشتمال میں مساوی الاقدام ہوتے تو نتیجہ بھی مساوی الدرجہ ہوتا۔ وارتفاع اللازم یستلزم ارتفاع الملزوم۔ یہ تقریر ہماری خاص کر اس وقت زیادہ وضاحت دیتی ہے۔ جب ہمارے سامنے کوئی شخص علماء کی نسبت بدزبانی کرتا ہوا یوں کہے کہ آج کل کے علماء ایسے ویسے ہیں ۔ اور دوسرا شخص خاص کر ہمارے نام سے وہی الفاظ ہمارے سامنے زبان پر لاوے تو دونوں حالتوں میں جتنا مختلف اثر ہم اپنے اندر پائیں گے اسی قدر ان دونوں لفظوں کی دلالت کا فرق ہوگا۔ دونوں حالتوں میں مختلف اثر کیوں ہے؟ اس لئے ہے کہ جب کوئی شخص ہمارے نام پر برا کہے تو اس میں کوئی تاویل یا عدم شمول کا خیال نہیں ہوسکتا ہے۔ اور جس وقت کوئی شخص ہماری ساری قوم کو یا ہم پیشہ لوگوں کو برا کہتا ہے تو ایک ضعیف سا وہم اور خیال اس بات کا باقی رہتا ہے کہ شاید یہ قائل ہم کو ایسے لوگوں سے الگ سمجھتا ہو۔ گو قائل نے کوئی قرینہ اس خیال کا بھی قائم نہ کیا ہو۔ پس اسی طریق دلالت کا نام ظنی اشتمال ہے فھوما اردنا۔ ہماری اس تقریر میں صاحب توضیح کا جواب بھی مل سکتا ہے کیونکہ کسی لفظ کو معنے کے لئے وضع کرنے کے یہ معنے ہیں کہ اس لفظ سے وہ معنی سمجھے جائیں۔ کسی طریق سے ہوں قطعی ہوں یا ظنی۔ خاص میں قطعی طریق سے دلالت ہوگی۔ عام میں ظنی سے۔ ہاں اگر عام میں قطعیت منظور ہوگی تو تاکید سے کام لیا جائے گا۔ تو افقا للادلۃ۔ فافھم۔ پس بعد اس تمہید کے ہم آیت کے جواب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اولاً تو آیت موصوفہ عام نہیں کیونکہ ” اذا“ کا لفظ سورۃ کلیہ کا نہیں بلکہ مہملہ ہے وھی تلاذم الجزئیۃ لا الکلیۃ۔ جب عام ہی نہیں تو حدیث سے تخصیص کسی طرح مشکل نہیں اور اگر بفحوائے مھملات العلوم کلیۃ عام بھی ہو تو بوجہ اشتمال ظنی مسمیات اپنے کے خبر واحد سے مخصوص ہوسکتا ہے۔ وہ کیا ہے ؟ لا صلوۃ الابفاتحۃ الکتاب۔ ولا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلوۃ لمن لم یقرؤھا (الحدیث) اس تخصیص کی تمثیل مسلمہ سننی ہو۔ تو سنو ! اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ۔ الایۃ۔ باوجو اس کے ایک وضو سے متعدد نمازیں جائز ہیں کما ھو مجمع علیہ فما ھو وجھہ وجہ ذا۔ اگر اس تقریر سے بھی ہم تنزل کریں اور یہ بھی تسلیم کرلیں کہ ” عام“ کا اشتمال قطعی ہے۔ تو بھی ہم باآسانی جواب دے سکتے ہیں کیونکہ در صورت قطعیت تخصیص بخبر واحد اسی صورت میں منع ہے جس میں عام مخصوص البعض نہ ہوچکا ہو۔ اور اگر ” عام“ کسی مخصص کے ساتھ مخصوص البعض ہوچکا ہے۔ تو پھر تخصیص بخبر واحد میں کوئی اشکال نہیں چنانچہ تصریحات علماء اس پر شاہد ہیں۔ اما العام الذی خص عنہ البعض فحکمہ انہ یجب العمل بہ فی الباقی مع الاحتمال فاذا قام الدلیل علی تخصیص الباقی یجوز تخصیصہ بخبرالواحد والقیاس (اصول شاشی ص ٤) جس عام سے بعض افراد مخصوص کئے جائیں اس کا حکم یہ ہے کہ اس کے باقی افراد پر عمل کیا جائے۔ باوجود احتمال پھر جب باقی افراد میں سے کسی فرد کی تخصیص پر دلیل قائم ہوجائے تو خبر واحد اور قیاس سے اس کی تخصیص جائز ہے۔ “ پس اب دیکھنا چاہئے کہ سوا خلف الامام کے کتنے افراد میں حنفیہ بھی آیت موصوفہ کو مخصوص مانتے ہیں۔ اگر جہری اور سری دونوں نمازوں میں اسے دلیل سمجھا جائے جیسا کہ ان کے سیاق دلیل سے معلوم ہوتا ہے تو پہلا فرد مخصوص صلوٰۃ فرادیٰ فرادیٰ ہے۔ دوم صبح کی نماز میں جماعت کے ہوتے اور امام کی قرأت پڑھتے وقت وہ سنتوں کا باب المسجد پر یا ستون کی اوٹ میں ادا کرنا کماھو مذکور فی الھدایۃ۔ سوم مسبوق کا امام کی قرأت کے اثناء میں تکبیر تحریمہ کہہ کر شریک ہونا حالانکہ تکبیر تحریمہ ” اللّٰہ اکبر“ ایک جملہ تامہ ہے جو فاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا کے صریح خلاف ہے۔ علیٰ ہذا القیاس۔ پس ایسا ہی چوتھا فرد خلف الامام بھی مخصوص ہو تو آیت موصوفہ سے کیونکر مخالف ہوسکتا ہے۔ یہ طرز استدلال ہمارا آیت کی تخصیص سے دراصل مدافعت ہے۔ نہ کہ اثبات دعویٰ۔ اب ہم دعویٰ کا ثبوت آسان طرز سے جس میں طول الامل بھی نہ ہو دیتے ہیں اور وہ یہ ہے قولہ تعالیٰ فاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ القُرْآنِ الایۃ۔ کل مفسرین و اہل مذاہب متفق ہیں کہ آیت موصوفہ نماز کے متعلق ہے۔ چنانچہ اسی آیت کی بناء پر حنفیہ کے نزدیک مطلق قرأت بلاتعیین فاتحہ فرض ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک اسی آیت سے قرأت فاتحہ خلف الامام کی فرضیت ثابت ہے۔ اس لئے کہ ” مَا“ جو مَا تَیَسَّرَ میں ہے۔ تین احتمال رکھتا ہے ” عام“ ” مطلق“ اور ” مجمل“۔ پہلے دو احتمال تو یہاں نہیں ہوسکتے۔ تیسرا صحیح ہے۔ ” عام“ تو اس لئے نہیں کہ ” عام“ کا حکم اس پر مترتب نہیں۔ ھو بمنزلۃ الخاص فی حق لزوم العمل بہ لا محالۃ وعلی ھذا قلنا اذا قطع السارق بعدما ھلک المسروق عندہ لایجب علیہ الضمان لان القطع جزاء جمیع ما اکتسب بہ فان کلمۃ ما عامۃ یتناول جمیع ماوجد من السآرق (اصول شاشی) عام کا حکم یہ ہے کہ وہ لزوم عمل میں بمنزلہ خاص کے ہے یقینا اسی بناء پر ہم (حنفیہ) نے کہا ہے کہ چور کے ہاتھ اگر اس کے پاس سے مال مسروقہ ضائع ہوجانے کے بعد کاٹے جائیں تو اس پر ضمان نہیں آتی کیونکہ قطع اس کے تمام کام کے عوض میں ہے اس لئے کہ کلمہ ” ما“ عام ہے۔ چور سے جو کچھ ہوا۔ اس سب کو شامل ہے۔ “ اسی لئے صاحب نورالانوار کو یہ تاویل کرنی پڑی کہ : لا یقال فحینئذ ینبغی ان یجب قرءۃ جمیع ما تیسر من القران فی الصلوۃ عملا لقولہ تعالیٰ فاقرء وا ماتیسر من القران لا نانقول بناء الامر علی التیسر ینا فی ذلک (نور الانوار ص ٧٦) تمام ما تیسر کا پڑھنا اس لئے واجب نہیں ہوا کہ آیت فاقرء وا الایۃ کا آسانی پر مبنی ہونا اس کے منافی ہے۔ “ لیکن جہاں ” ما“ کی عمومیت پر دلیل لایا کرتے ہیں وہاں پر یہ مثال بھی ساتھ ہی مذکور ہوتی ہے کہ : اذا قال المولٰی لجاریتہ ان کان ما فی بطنک غلاما فانت حرۃ فولدت غلاما وجاریۃ لم تعتق لان المعنی حینئذان کان جمیع ما فی بطنک غلاما فانت حرۃ ولم یکن کذلک بل کان بعض ما فی بطنہا غلاما وبعضہ جاریۃ فلم یوجد الشرط (نور الانوارص ٧٦ و اصول شاشی ص ٢) مالک اپنی لونڈی سے کہے کہ جو کچھ تیرے پیٹ میں ہے۔ اگر یہ لڑکا ہے تو تو آزاد ہے۔ وہ ایک لڑکا اور ایک لڑکی جنی تو آزاد نہ ہوگی کیونکہ مالک کے کلام کے یہ معنے تھے کہ جو کچھ تیرے پیٹ میں قابل اولاد ہے وہ سارا لڑکا پیدا ہو تو آزاد ہوگی۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ اس میں سے بعض تو لڑکا ہوا اور بعض لڑکی ہوگئی پس شرط نہ پائی گئی۔ “ پس جب اس ” ما“ میں اتنی گنجائش نہیں کہ ایک لڑکے کے ساتھ ایک لڑکی بھی سما سکے۔ بلکہ دو تین لڑکے اور ایک لڑکی بھی پیدا ہو۔ تو بھی ” ما“ کے خلاف ہے۔ تو جس صورت میں تمام قرآن متیسر ہونے کے وقت تین آیتوں سے فرضیت کا سقوط ہو تو ” ما“ کا حکم کیا بحال رہے گا؟ ہرگز نہیں مطلق اس لئے نہیں کہ مطلق کا حکم بھی یہاں پایا نہیں جاتا کیونکہ فان حکم المطلق ان یکون الاٰتی بای فرد کان اتیا بالمامور بہ (اصول شاشی ص ٥) مطلق کا حکم ہے کہ اس کے افراد میں سے جس فرد کو مکلف ادا کرے واجب ہی ادا ہوتا ہے۔ پس اس بنا پر اگر کوئی شخص ایک رکعت میں سورۂ بقرہ کو متیسر سمجھ کر ساری ختم کرے تو کہا جائے گا کہ اس کی قرأت سے فرضیت ادا ہوئی؟ نہیں بلکہ یوں کہا جائے گا کہ ایک آیت یا تین آیتوں سے تو فرضیت ادا ہوئی اور باقی سے سنیت ! یا استحباب۔ پس موصوفہ میں ” ما“ مطلق بھی نہ ہوا جب دونوں (عام اور مطلق) نہیں تو تیسری قسم مجمل ہونے میں کیا اشتباء ہے۔ اما المجمل فما ازدحمت فیہ المعانی واشتبہ المراد بہ اشتباھا لا یدرک بنفس العبارۃ بل بالرجوع الی الاستفسار ثم الطلب ثم التامل المجمل ما احتمل وجوھا فصار بحال لا یوقف علی المراد الاببیان من قبل المتکلم (اصول شاشی) مجمل کی تعریفات شتیٰ پر غور کرنے سے بھی اس ” ما“ کا مجمل ہونا ہی معلوم ہوتا ہے۔ ازدحام معانی۔ اشتباہ مراد احتمال وجوہ شتیٰ سب اس میں پائے جاتے ہیں (اس کی مزید توضیح آگے آتی ہے) پس جب یہ ” ما“ مجمل ہے تو بموجب حکم مجمل الاببیان من قبل المتکلم وغیر ذلک اس کا بیان حدیث مذکور لا صلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب ولا تفعلوا الا بفاتحۃ الکتاب وغیرذلک من صحاح الاحادیث کرنے کو کافی ہیں۔ یہ تقریر ہماری بعینہ صدر الشریعۃ کی تقریر سے مشابہ ہے۔ صاحب موصوف نے مسح ربع راس کے اثبات کے لئے جو تقریر کی ہے۔ ناظرین وہ بھی سنیں۔ پھر ہماری طرز استدلال کو اس سے مقابلہ کریں۔ صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ : اما نفی مذھب الشافعی فمبنی علی ان الایۃ مجملۃ فی حق المقدار لا مطلقۃ کما زعم لان المسح امراء الید المبتلۃ ولا شک ان مماسۃ الانملۃ شعرۃ او ثلثا لا تسمی مسح الرأس وامرار الید یکون لہ حد وھو غیر معلوم فیکون مجملا لانہ اذا قیل مسحب بالحائط یرادبہ البعض وفی قولہ تعالیٰ فامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ الکل فیکون الایۃ فی المقدار مجملۃ ففعلہ (علیہ السلام) انہ مسح علی ناصیۃ یکون بیانالہ (شرح وقایۃ لکھنوی ص ٦١) شافعی (رح) کے مذہب میں نفی اس پر مبنی ہے کہ آیت مقدار میں مجملہ ہے مطلق نہیں جیسا کہ شافعی کا گمان ہے کیونکہ مسح بھیگے ہاتھ کے پھیر کو کہتے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ ایک دو یا تین بالوں کو انگلیوں کا چھو جانا مسح نہیں کہلاتا اور ہاتھ کے پھیرنے کی بھی کوئی حد ہے جو معلوم نہیں پس آیت مجمل ہے کیونکہ جب کہا جاتا ہے میں نے دیوار کو مسح کیا تو تمام دیوار مراد نہیں ہوتی بلکہ بعض ہوتی ہے اور فرمان اللہ تعالیٰ میں کہ مونہوں کو مسح کرو۔“ کل منہ مراد ہیں۔ پس آیت مقدار میں مجملہ ہے پس آں حضرت کا فعل کہ آپ نے ناصیہ (بقول حنفیہ ربع سر) پر مسح کیا۔ اس کا بیان ہوگا۔ ٹھیک اسی طرح ہم آیت فاقرء واما تیسر الایۃ کی تقریر کرسکتے ہیں کہ : لا شک ان التیسیر لہ حد وھو غیر معلوم فیکون الایۃ مجملۃ لانہ اذا قیل تیسر لی القران فقرأت کلّہ یراد بہ الکل وفی قولہ فاقرء واما تیسر الایۃ بے شک تیسیر (آسانی) کی کوئی حد ہے پس آیت مجملہ ہے۔ کیونکہ جب کہا جائے کہ مجھے قرآن متیسر ہوا تو میں نے سارا پڑھا کل مراد ہے اور فرمان اللہ تعالیٰ فاقرء واما البعض فیکون الایۃ مجملۃ قولہ (علیہ السلام) فی الصحیح لا صلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب ولا تفعلوا الا بفاتحۃ الکتاب الحدیث یکون بیانا لہ فالحمدللہ تیسر الایۃ میں بعض پس آیت مجمل ہوئی پس فرمان نبوی صحیح حدیث میں کہ سوائے فاتحہ کے نماز نہیں ہوتی اور نماز میں امام کے پیچھے بجز فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو اس آیت مجملہ کا بیان ہے۔ بعض اعلام رحمہ اللہ تعالیٰ العلام حسب مذاق خود اور ہی طرز پر چلے ہیں کہ امام اور مقتدی کی نماز درحقیقت صلوٰۃ واحد ہے یعنی امام مقتدی کے لئے واسطہ فی العروض ہے۔ چونکہ واسطہ فی العروض میں حرکت ایک ہی ہوتی ہے اس لئے جماعت کے وقت دونوں کی نماز میں ایک ہی فاتحہ ہوگی جو امام پڑھتا ہے فرماتے ہیں کہ اس سے لا صلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب والی حدیث بھی بحال رہی اور قرءۃ الامام قرءۃ لہ کے معنے بھی واضح ہوگئے۔ یہ سب کچھ تو ہوا۔ لیکن ہمیں ایک شبہ باقی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر امام واسطہ فی العروض ہوتا تو جیسی بحکم حرکت واحدہ مقتدی سے قرءۃ ساقط ہوئی تھی دیگر ارکان رکوع۔ سجود۔ قعدہ وغیرہ بھی ساقط ہوتے حالانکہ ایسا نہیں۔ یہاں تک کہ تسبیحات وغیرہ سنن بھی ساقط نہیں ہوتیں۔ نیز چونکہ واسطہ فی العروض میں اصل حرکت سے موصوف واسطہ ہوتا ہے اور ذی واسطہ نہیں بلکہ ذی واسطہ سے حرکت حقیقتہ مسلوب ہوتی ہے جیسی سفینہ اور سوار کی تمثیل سے ظاہر ہے کہ السفینۃ متحرکۃ والراکب لیس بمتحرک حقیقۃ پس حسب مقتضائے واسطہ فی العروض ہم کہہ سکتے ہیں کہ الامام مصل حقیقۃ والمقتدی ولیس بمصل حققۃ ی جس کا نتیجہ صریح ہے کہ مقتدی نے فرمان واجب الاذحان اقیموا الصلوۃ پر عمل ہی نہیں کیا۔ بلکہ من ترک الصلوۃ متعمدا فقد کفر کی ذیل میں آگیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ گو مقتدی حقیقۃ موصوف بالصلوۃ نہیں مگر حکماً تو ہے اتنا ہی اس کے لئے کافی ہے تو کہا جائے گا کہ اقیموا الصلوۃ میں جو سب اہل ایمان کو حکم ہے حقیقی صلوۃ کا ہے یا حکمی کا۔ اگر سب کو حقیقی کا ہے تو ایراد وارد۔ اور اگر سب کو حکمی کا تو امام صاحب غیر مطیع اور اگر حقیقی اور حکمی دونوں کا ہے تو جمع بین الحقیقۃ والمجاز وھو کما تری۔ ہاں اگر امام کو واسطہ فی الثبوت قسم ثانی کہا جائے تو البتہ صحیح ہے کیونکہ واسطہ فی الثبوت میں ذی واسطہ سے حرکت مسلوب نہیں ہوتی۔ کما تری فی حرکۃ الید والمفتاح۔ جہاں تک ہم سے ہوسکا ہم نے اپنے مدعا کے اثبات میں کسی مغالطہ یا سفسطہ سے کام نہیں لیا۔ امید ہے کہ ناظرین اگر ہماری معروضہ بالا تقریر کو بغور پڑھیں گے مذہب میں متفق اللفظ نہ ہوں گے تو تقریر کے طرز استدلال کے محسن ضرور ہوں گے۔ اب ہم ایک دو حدیثوں کا جو مانعین کی سر دفتر ہیں جواب عرض کر کے حاشیہ کو ختم کرتے ہیں۔ اول حدیث وہ ہے جس کے الفاظ یہ ہیں من کان لہ امام فقرءۃ الامام لہ قرءۃ (مذکور فی الھدایۃ وغیرہ) یعنی جو شخص امام کے پیچھے ہو۔ امام کی قرأت اس کے واسطے کافی ہے۔ جواب اس کا یہ ہے کہ اس حدیث کو بہت سے علماء نے غیر معتبر کہا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جزء القرأت میں ھذا خبر لم یثبت عند اھل العلم لانقطاعہ وارسالہ کہا ہے۔ حافظ ابن حجر اور دارقطنی وغیرہ نے اس کو ضعیف کہا ہے اور اگر نہایت عرقریزی کر کے اس حدیث کو پایہ اعتبار تک پہنچایا جائے تو غایت ما فی الباب حسن کے درجہ تک پہنچے گی جو احادیث صحیحہ و آیات قرآنیہ کے مقابلہ میں مرجوح ہے۔ علاوہ اس کے تطبیق بھی ممکن ہے۔ کیونکہ اس میں عام قرأت کی کفایت ہے اور احادیث صحیحہ میں خاص قرأت فاتحہ کا ثبوت ہے پس عام اور خاص کے متعلق جمہور کے مذہب پر جس کو ہم نے بھی مدلل کیا ہے۔ (کما مر مفصلا) بالکل آسان بات ہے۔ کہ الخاص مقدم علی العام لانہ قطعی والعام ظنی حنفیہ کے نزدیک بھی گو عام مساوی خاص کے ہے۔ خاص سے عام کی تخصیص ممکن ہے چنانچہ نور الانوار میں مرقوم ہے واذا اوصی بخاتم للانسان ثم بالفصمنہ لاخران الحلقۃ للاول والفص بینہما بخلاف ما اذا اوصی بالفص بکلام موصول فانہ یکون بیانا لان المراد بالخاتم فیما سبق الحلقۃ فقط فتکون الحلقۃ للاول والفص للثانی۔ پس جمع بنا الادلۃ کے اصول سے بھی یہی رائے صحیح ہے کہ سورۃ فاتحہ کے سوا باقی قرأت میں امام کو نائب سمجھا جائے۔ کذا قال البیہقی وغیرہ۔ دوسری حدیث وہ ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ ” امام اس لئے مقرر ہوا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے جب تکبیر کہے تو تکبیر کہو اور جب پڑھے تو چپ رہو“ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک تو اس حدیث کا اخیر فقرہ کہ جب پڑھے۔ تو چپ رہو۔ ضعیف ہے امام نووی نے کہا ہے کہ حفاظ حدیث اس کے ضعف پر متفق ہیں ۔ دوم یہ حدیث بھی مخصوص ہے۔ بغیر فاتحہ کے اس دعویٰ پر علاوہ مذکورہ بالا دلائل کے یہ بھی ایک قرینہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) جو اس حدیث کے راوی ہیں انہی سے کسی نے پوچھا کہ امام کے پیچھے ہم پڑھا کریں یا نہیں۔ ابوہریرہ نے کہا اقرء بھا فی نفسک یعنی آہستہ آہستہ پڑھ لیا کر۔ کیونکہ حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حدیث قدسی میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : قال اللہ تعالیٰ قسمت الصلوۃ بینی وبین عبدی نصفین ولعبدی ماسأل فاذا قال العبد الحمدللہ رب العالمین قال اللہ تعالیٰ حمدنی عبدی واذا قال الرحمن الرحیم قال اثنی علی عبدی واذا قال مالک یوم الدین قال مجدنی عبدی واذا قال ایاک نعبد و ایاک نستعین قال ھذا بینی و بین عبدی ولعبدی ما سأل فاذا قال اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین قال ھذا لعبدی ولعبدی ما سأل (رواہ مسلم) میں نے نماز (یعنی فاتحہ) کو اپنے اور بندے میں دو حصے کیا۔ میرا بندہ جو مانگے اس کو دیتا ہوں۔ جب بندہ کہتا ہے الحمدللہ رب العالمین اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندہ نے میری تعریف کی ہے اور جب الرحمن الرحیم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندہ نے میری ثنا کی ہے اور جب مالک یوم الدین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے میرے بندہ نے میری بزرگی بیان کی ہے اور جب ایاک نعبد و ایاک نستعینکہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے یہ جملہ میری تعریف کا اور بندے کی حاجت کا ہے اور میرے بندہ نے جو مانگا اس کو ملے گا اور جب اھدنا الایۃ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے بندہ کے فائدہ کے لئے ہے جو اس نے مانگا اسے ملے گا۔ “ علاوہ اس کے اگر عبادہ بن صامت (رض) کی حدیث کو زیر نظر رکھا جائے تو ان سب قضایا کا فیصلہ ہی ہوجاتا ہے۔ جس کا مضمون یہ ہے : عن عبادۃ ابن الصامت قال صلی رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم الصبح فثقلت علیہ القرئۃ فلما انصرف قال انی اراکم تقرء ون وراء امامکم قال قلنا یا رسول اللہ تعالیٰ ای واللہ تعالیٰ قال لا تفعلوا الابام القران فانہ لا صلوۃ لمن لم یقرء بھا۔ رواہ ابوداود والترمذی و فی لفظ فلا تقرئوا بشئ من القران اذا جھرت الابام القران رواہ ابوداود والنسائی والدار قطنی وقال کلھم ثقات (کذا فی المنتقی) عبادہ بن صامت نے کہا کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز صبح کی نماز پڑھائی تو آپ کی قرأت رک گئی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ مجھے گمان ہوتا ہے کہ تم امام کے پیچھے پڑھتے ہو۔“ (ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے سبح اسم اونچی پڑھی تھی) ہم نے عرض کیا۔ ہاں حضرت ! فرمایا سوائے ام القران یعنی فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز ہی نہیں۔ ایک روایت میں ہے جب میں اونچے پڑھوں تو سوائے فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو۔ “ یہ حدیث سب جھگڑوں کی بیخ کن ہے اس حدیث کے مالہ وما علیہ کی تفصیل کی جگہ نہیں من شاء التفصیل فلیرجع الی تخریج الزیلعی وغیرہ۔ واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ اتم۔ انما جعل الامام لیؤتم بہ فاذ اکبر فکبروا و اذا قرء فانصتوا۔ ١٢ اور اس قرآن کے حکموں میں سے ایک حکم یہ ہے کہ تو اپنے پروردگار کو جی ہی جی میں عاجزی اور اس کی عظمت کے خوف سے نہ زور کی آواز سے بلکہ مناسب درمیانی آواز سے صبح شام پکارا کر اور غافلوں کی جماعت سے نہ ہوجیو۔ تمام روز دنیا کے دھندوں میں ہو کر لاَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ الاَّ قَلِیْلاً کے مصداق ہیں جن کے حق میں کسی بزرگ نے کیا ہی خوب کہا ہے اہل دنیا کافران مطلق اند روز و شب در زق زق دور بق بق اند بے شک جو تیرے پروردگار کے نزدیک مقرب یعنی حضرات انبیاء اور اولیاء اللہ تعالیٰ ہیں وہ باوجود اس اعلیٰ رتبہ کے بھی اس کی عبادت کرنے سے تکبر اور سرکشی نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ فروتنی سے اس کی عبادت میں لگے رہتے ہیں۔ اور اس کی تسبیح پڑھتے ہیں اور اسی کو سجدے کرتے ہیں۔ مختصر یہ ہے کہ وے اس کے ہیں اور وہ ان کا ہے۔ کیا سچ ہے سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنْہُمْ۔ اٰمین