سورة الاعراف - آیت 23

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

انہوں نے عرض کیا پروردگار ! ہم نے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کیا، اگر تو نے ہمارا قصور نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہمارے لیے بربادی کے سوا کچھ نہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴾ ” اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہوجائیں گے۔“ یعنی ہم سے وہ گناہ سر زد ہوگیا جس سے تو نے ہمیں روکا تھا۔ ہم نے گناہ کا ارتکاب کر کے اپنے آپ کو سخت نقصان پہنچایا اور اگر تو نے گناہ اور اس کی عقوبت کے آثار کو نہ مٹایا اور اس قسم کی خطاؤں سے توبہ قبول کر کے معافی کے ذریعے سے ہم پر رحم نہ کیا، تو ہم نے سخت خسارے کا کام کیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی﴿وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ  ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ  ﴾(طہ :20؍121، 122) ” اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہ سے بھٹک گیا۔ پھر اس کے رب نے اس پر نوازش کی اور اس پر توجہ فرمائی اور راہنمائی کی۔ “ یہ رویہ آدم علیہ السلام کا تھا۔ مگر اس کے برعکس ابلیس اپنی سرکشی پر جما رہا اور نافرمانی سے باز نہ آیا۔ پس جو کوئی آدم علیہ السلام کی طرح اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے ندامت کے ساتھ مغفرت کا سوال کرتا ہے اور گناہ سے باز آجاتا ہے تو اس کا رب اسے چن لیتا ہے اور سیدھی راہ پر ڈال دیتا ہے اور جو کوئی ابلیس کی طرح اپنے گناہ اور نافرمانی پر جم جاتا ہے اور اس کی نافرمانیاں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ سے دوری کے سوا اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔