كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُن فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنذِرَ بِهِ وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ
( اے پیغمبر) یہ کتاب ہے (١) جو تم پر نازل کی گئی ہے۔ اس لیے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو (انکار و بدعملی کی پاداش سے) خبردار ہوشیار کردو اور اس لیے کہ ایمان رکھنے والے کے لیے بیدار و نصیحت ہو۔ دیکھو ایسا نہ ہو کہ اس بارے میں کسی طرح کی تنگ دلی تمہارے اندر راہ پائے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ ﴾ ” یہ کتاب اتاری گئی ہے آپ پر، یعنی یہ نہایت جلیل القدر کتاب جو ان امور پر مشتمل ہے جن کے بندے محتاج ہیں اور اس میں تمام مطالب الٰہیہ اور مقاصد شرعیہ محکم اور مفصل طور پر موجود ہیں ﴿ فَلَا يَكُن فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ﴾ ” پس آپ کا سینہ اس (کے پہنچانے) سے تنگ نہ ہو“ یعنی آپ کے دل میں کوئی تنگی اور شک و شبہ نہ ہو۔ تاکہ آپ جان لیں کہ یہ حکمت والی اور قابل تعریف ہستی کی طرف سے نازل کردہ کتاب ہے اور سب سے سچا کلام ہے۔ ﴿ لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ﴾ (حم السجدہ :41؍42) ” باطل اس کے آگے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے“۔ اس لئے آپ کے سینے کو کشادہ اور آپ کے دل کو مطمئن ہونا چاہئے۔ پس آپ اللہ تعالیٰ کے اوامرونواہی کو کھول کر بیان کیجیے اور کسی کی ملامت اور مخالفت سے نہ ڈریئے۔ ﴿لِتُنذِرَ ﴾ ” تاکہ آپ اس کے ذریعے سے (لوگوں کو) ڈرائیں۔“ اس کتاب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو ڈرائیے اور ان کو وعظ و نصیحت کیجیے۔ پس اس طرح معاندین حق پر حجت قائم ہوجائے گی۔ ﴿وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” اور اہل ایمان کے لئے یاد دہانی ہوگی۔“ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (الذاریات :51؍55) ” نصیحت کیجیے کیونکہ نصیحت مومنوں کو فائدہ دیتی ہے۔“ اہل ایمان کو اس کے ذریعے سے صراط مستقیم، ظاہری اور باطنی اعمال کی یاد دہانی ہوگی اور ان امور کے بارے میں بھی یاد دہانی ہوگی جو بندے اور اس کے سلوک کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں۔