وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ ۖ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ
اور (پھر دیکھو) ہم نے (تمہاری رہنمائی کے لیے پہلے) موسیٰ کو کتاب دی۔ پھر موسیٰ کے بعد ہدایت کا سلسلہ پے در پے رسولوں کو بھیج کر جاری رکھا، بالآخر مریم کے بیٹے عیسیٰ کو سچائی کی روشن نشانیاں دیں، اور روح القدس کی تائید سے ممتاز کیا (لیکن ان میں سے ہر دعوت کی تم نے مخالفت کی) پھر کیا تمہار شیوہ ہی یہ ہے کہ جب کبھی اللہ کا کوئی رسول ایسی دعوت لے کر آئے جو تمہاری نفسانی خواہشوں کے خلاف ہو، تو تم اس کے مقابلے میں سرکشی کر بیٹھو، اور کسی کو جھٹلاؤ، کسی کو قتل کردو
﴿ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ﴾” اور تحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی“ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے اپنے کلیم حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان میں مبعوث فرمایا، ان کو تورات عطا کی۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان میں پے در پے انبیاء اور رسول مبعوث فرمائے جو تورات کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے آخری نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور انہیں واضح نشانیاں عطا کیں جن پر انسان ایمان لے آتا ہے۔ ﴿وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ﴾ یعنی ” حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو روح القدس کے ذریعے تقویت دی۔“ اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ روح القدس سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں۔ بعض کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد وہ ایمان ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو قوت اور استقامت عطا کرتا ہے۔ پھر ان نعمتوں کے باوجود، جن کی قدر و عظمت کے اندازہ نہیں کیا جاسکتا، جب وہ تمہارے پاس وہ کچھ لائے﴿بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ﴾ ” جن کو تمہارا دل نہیں چاہتا تھا تو تم نے (ایمان لانے کی بجائے) تکبر کیا۔“ ﴿فَفَرِيقًا﴾ یعنی انبیاء میں سے ایک فریق کو ﴿كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ﴾” تم نے جھٹلایا اور ایک فریق کو تم نے قتل کردیا۔“ پس تم نے خواہشات نفس کو ہدایت پر مقدم رکھا اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دی۔ اس آیت کریمہ میں جو زجر و توبیخ اور تشدید ہے، وہ ڈھکی چھپی نہیں۔