وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ
اور پھر و (وہ معاملہ یاد کرو) جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے تم سے عہد لیا تھا : آپس میں ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے اور نہ اپنے آپ کو (یعنی اپنی جماعت کے افراد کو) جلا وطن کرو گے۔ تم نے اس کا اقرار کیا تھا اور تم (اب بھی) یہ بات مانتے ہو۔
آیت کریمہ میں مذکور فعل ان لوگوں کا تھا جو نزول وحی کے زمانے میں مدینہ میں موجود تھے اور یہ اس طرح کہ اوس اور خزرج، جو انصار کے نام سے مشہور ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل مشرک تھے اور جاہلیت کی عادت کے مطابق باہم دست و گریباں رہتے تھے، اسی اثناء میں یہود کے تین قبیلوں، بنو قریظہ، بنو نضیر اور بنو قینقاع نے مدینہ میں آ کر وہاں رہنا شروع کردیا۔ ان میں سے ہر قبیلے نے مدینہ کے کسی قبیلے کے ساتھ (دفاعی) معاہدہ کرلیا۔ جب کبھی اوس اور خزرج کی آپس میں لڑائی ہوتی تو یہودی قبیلہ اس کے مخالفین کے خلاف مدد کرتا جن کی مدد دوسرا یہودی قبیلہ کر رہا ہوتا۔ یوں یہودی ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو جلا وطن کردیتے اور ایک دوسرے کا مال لوٹ لیتے پھر جب جنگ ختم ہوجاتی تو جنگ کے فریقین نے ایک دوسرے کے جو افراد جنگی قیدی بنائے ہوتے، وہ ان کو فدیہ دے کر آزاد کرواتے۔ یہ تینوں امور، جن کی یہ خلاف ورزی کر رہے تھے، ان پر فرض کیے گئے تھے : (1) ایک دوسرے کا خون نہ بہائیں (2) ایک دوسرے کو گھروں سے نہ نکالیں۔ (3) جب وہ اپنے میں سے کسی کو قیدی پائیں تو اس کا فدیہ دے کر اسے چھڑانا ان کے لیے ضروری ہے۔