فَمَن يُرِدِ اللَّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ ۚ كَذَٰلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ
غرض جس شخص کو اللہ ہدایت تک پہنچانے کا ارادہ کرلے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے، اور جس کو (اس کی ضد کی وجہ سے) گمراہ کرنے کا ارادہ کرلے، اس کے سینے کو تنگ اور اتنا زیادہ تنگ کردیتا ہے کہ (اسے ایمان لانا ایسا مشکل معلوم ہوتا ہے) جیسے اسے زبردستی آسمان پر چڑھنا پڑ رہا ہو۔ اسی طرح اللہ (کفر کی) گندگی ان لوگوں پر مسلط کردیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کے سامنے بندے کی سعادت و ہدایت اور اس کی شقاوت و ضلالت کی علامات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جس کو اسلام کے لئے انشراح صدر ہوجاتا ہے یعنی اس کا سینہ وسیع ہوجاتا ہے۔ تو دل نور ایمان سے منور اور یقین کے پر تو سے زندہ ہوجاتا ہے اور نفس ایمان پر مطمئن ہوجاتا ہے، نفس نیکی سے محبت کرنے لگتا ہے اور نیکی میں لذت محسوس کرتے ہوئے نیکی کرتا ہے نیکی کو بوجھ نہیں سمجھتا۔ پس یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ہدایت عطا کر دی ہے اور اسے توفیق سے نواز کر سب سے درست راستے پر گامزن کر دیا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے اس کی علامت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کردیتا ہے یعنی اس کا سینہ ایمان، علم اور یقین کے لئے بہت تنگ ہوجاتا ہے، اس کا دل شبہات و شہوات کے سمندر میں غرق ہوجاتا ہے، بھلائی اس تک راہ نہیں پا سکتی، نہ بھلائی اور نیکی کے لئے اس کو انشراح صدر حاصل ہوتا ہے۔ گویا وہ سخت تنگی اور شدت میں ہے، گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے۔ یعنی اسے آسمان پر چڑھنے کا مکلف کیا جا رہا ہے جہاں چڑھنے کا اس کے اندر کوئی حیلہ نہیں۔ یہ ہے ان کے عدم ایمان کا سبب اور یہی وہ چیز ہے جو اس بات کی موجب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر عذاب بھیجے، کیونکہ انہوں نے خود اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور احسان کے دروازے بند کر لئے۔ یہ ایسی میزان ہے جو کبھی خیانت نہیں کرتی اور ایسا راستہ ہے جو کبھی نہیں بدلتا۔ بیشک جو کوئی اللہ کے راستے میں مال عطا کرتا ہے، اللہ سے ڈرتا ہے، نیکی کی تصدیق کرتا ہے تو ہم اس کو آسان راستے (بھلائی) کی توفیق عطا کردیتے ہیں اور جو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں بخل کرتا ہے اور بے پروا بنا رہتا ہے اور نیکی کو جھٹلاتا ہے تو ہم اس کو مشکل راستے (گناہ) پر گامزن کردیتے ہیں۔