وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ
اور اگر تم زمین میں بسنے والوں کی اکثریت کے پیچھے چلو گے تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے گمراہ کر ڈالیں گے۔ وہ تو وہم و گمان کے سوا کسی چیز کے پیچھے نہیں چلتے، اور ان کا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ خیالی اندازے لگاتے رہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی اکثریت کی اطاعت سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا ہے ﴿وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ﴾ ” اگر آپ کہنا مانیں گے اکثر ان لوگوں کا جو دنیا میں ہیں تو آپ کو اللہ کے راستے سے بہکا دیں گے“ کیونکہ ان میں سے اکثر لوگ اپنے دین، اعمال اور علوم سے منحرف ہوچکے ہیں۔ پس ان کے دین فاسد اور ان کے اعمال ان کی خواہشات نفس کے تابع ہیں اور ان کے علوم میں تحقیق ہے نہ سیدھے راستے کی طرف راہنمائی۔ ان کا تمام تر مقصد ظن و گمان کی پیروی ہے اور ظن و گمان حق کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں محض اندازوں سے ایسی بات کہتے ہیں جس کا انہیں علم نہیں۔ جس کے یہ احوال ہوں تو اس سے اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو ڈرانا اور ان کے احوال کو بیان کرنا مناسب ہے، کیونکہ اس آیت کریمہ کا خطاب اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے تاہم آپ کی امت ان تمام احکام میں آپ کی تابع ہے جو خصوصی طور پر صرف آپ کے لئے نازل نہیں فرمائے گئے اور اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ سچی بات کہنے والا ہے ﴿هُوَ أَعْلَمُ مَن يَضِلُّ عَن سَبِيلِهِ ﴾” وہ خوب جانتا ہے اس کو جو اس کے راستے سے بہکے“ اور وہ اسے بھی جانتا ہے جو راہ راست پر چلے اور جو راہ راست کی طرف راہنمائی کرے۔ پس اے مومنو ! تم پر فرض ہے کہ تم اس کی نصیحتوں پر عمل کرو اور اس کے اوامر و نواہی کی پیروی کرو۔ کیونکہ وہ تم سے زیادہ تمہارے مصالح کا علم رکھتا ہے اور تم سے زیادہ تم پر رحم کرنے والا ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ کسی گروہ کی کثرت سے اس کے حق ہونے پر استدلال نہیں کیا جاسکتا اور اسی طرح اگر کسی معاملے میں، اس کو اختیار کرنے والے تھوڑے ہوں تو یہ قلت ان کے ناحق ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی، بلکہ اس کے برعکس فی الواقع حقیقت یہ ہے کہ اہل حق تعداد میں بہت کم اور اللہ تعالیٰ کے ہاں قدر اور اجر میں بہت عظیم ہوتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ حق و باطل کی پہچان کے لئے ان ذرائع کو اختیار کیا جائے جو اس کے لئے معروف ہیں۔