لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ
نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں، اور وہ تمام نگاہوں کو پالیتا ہے۔ اس کی ذات اتنی ہی لطیف ہے، اور وہ اتنا ہی باخبر ہے۔ (٤١)
﴿لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ﴾ ” اسے آنکھیں نہیں پا سکتیں“ اس کی عظمت اور اس کے جلال و کمال کی بنا پر نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں۔ یعنی نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔ اگرچہ آخرت میں اس کو دیکھ سکیں گی اور اس کے چہرہ مکرم کے نظارے سے خوش ہوں گی۔ پس ادراک کی نفی سے روئیت کی نفی لازم نہیں آتی بلکہ مفہوم مخالف کی بنا پر رؤیت کا اثبات ہوتا ہے کیونکہ ادراک، جو کہ رؤیت کا ایک خاص وصف ہے، کی نفی رؤیت کے اثبات پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے کہ اگر اس آیت کریمہ سے رؤیت باری تعالیٰ کی نفی مراد ہوتی تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ ہوتا (لا تراہ الابصار) یا اس قسم کا کوئی اور فقرہ۔ پس معلوم ہوا کہ آیت کریمہ میں معطلہ کے مذہب پر کوئی دلیل نہیں جو آخرت میں رب تعالیٰ کے دیدار کا انکار کرتے ہیں، بلکہ اس سے ان کے مذہب کے نقیض (برعکس) کا اثبات ہوتا ہے۔ ﴿وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ﴾ ” اور وہ آنکھوں کو پاسکتا ہے“ یعنی وہی ہے جس کے علم نے ظاہر و باطن کا احاطہ کر رکھا ہے، اس کی سماعت تمام جہری اور خفیہ آوازوں کو سنتی ہے اور بصارت تمام چھوٹی بڑی مرئیات کو دیکھتی ہے۔ بنابریں فرمایا : ﴿ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾ ” اور وہ نہایت باریک بین، خبر دار ہے۔“ یعنی جس کا علم اور خبر بہت باریک اور دقیق ہے حتیٰ کہ اسرار نہاں، چھپی ہوئی چیزوں اور باطن کا بھی ادراک کرلیتا ہے۔ یہ اس کا لطف و کرم ہے کہ وہ اپنے بندے کی اس کے دینی مصالح کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور ان مصالح کو اس کے پاس اس طریقے سے پہنچاتا ہے کہ بندے کو اس کا شعور تک نہیں ہوتا اور اسے ان مصالح کے حصول کے لئے تگ و دو نہیں کرنی پڑتی۔ وہ اپنے بندے کو ابدی سعادت اور دائمی فلاح کی منزل پر اس طرح پہنچاتا ہے جس کا وہ اندازہ ہی نہیں کرسکتا۔ یہاں تک کہ وہ بندے کے لئے ایسے امور مقدر کردیتا ہے جنہیں بندہ ناپسند کرتا ہے اور ان کی وجہ سے دکھ اٹھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے ان کو دور کرنے کی دعا کرتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کا دین اس کے لئے زیادہ درست ہے اور اس کا کمال انہی امور پر موقوف ہے۔ پاک ہے وہ لطف و کرم والی باریک بین ذات جو مومنوں کے ساتھ بہت رحیم ہے۔