وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ
وہی ہے جس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر ہر شخص کا ایک مستقر ہے، اور ایک امانت رکھنے کی جگہ (٣٧)۔ ہم نے ساری نشانیاں ایک ایک کرکے کھول دی ہیں، (مگر) ان لوگوں کے لیے جو سمجھ سے کام لیں۔
﴿ وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ﴾ ” اور وہی ذات ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا“ اور وہ آدم ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے تمام نسل انسانی کو پیدا کیا جس نے روئے زمین کو بھر دیا ہے اور یہ اضافہ بڑھتا جا رہا ہے۔ نسل انسانی کے افراد کی خلقت، ان کے اخلاق اور اوصاف میں اس قدر تفاوت ہے کہ ان کو ضبط میں لانا اور ان کے تمام اوصاف کا ادراک ممکن ہی نہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کامُسْتَقَریعنی ان کی غایت و انتہا مقرر فرما دی ہے جس کی طرف ان کو لے جایا جا رہا ہے اور وہ ہے آخرت کی جائے قرار، اس سے آگے کوئی غایت و منتہا نہیں۔ دنیا وہ گھر ہے جہاں رہنے کے لئے مخلوق کو پیدا کیا گیا اور ان کو اس لئے وجود میں لایا گیا تاکہ وہ ان اسباب کے لئے بھاگ دوڑ کریں جو زمین میں پیدا ہوتے ہیں اور زمین ان سے آباد ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے آباء کی پشتوں میں اور ماؤں کے رحموں میں امانت رکھ دیا، وہاں سے یہ امانت اس دنیا میں آجاتی ہے، پھر برزخ میں منتقل ہوجاتی ہے۔ ہر جگہ اس کی حیثیت امانت کی ہوتی ہے جس کو ٹھہراؤ اور ثبات نہیں بلکہ منتقل ہوتی رہتی ہے، یہاں تک کہ دار آخرت میں اسے پہنچا دیا جائے جو اس کا مستقر و مقام ہے۔ رہا دنیا کا یہ گھر تو یہ صرف گزر گاہ ﴿قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ﴾ ” تحقیق ہم نے کھول کر بیان کردیں نشانیاں، ان لوگوں کے لئے جو سمجھتے ہیں“ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی آیات کو سمجھیں اور اس کے دلائل و براہین کا فہم حاصل کریں۔