وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
اور اسی نے تمہارے لیے ستارے بنائے ہیں، تاکہ تم ان کے ذریعے خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں راستے معلوم کرسکو۔ ہم نے ساری نشانیاں ایک ایک کر کے کھول دی ہیں (مگر) ان لوگوں کے لیے جو علم سے کام لیں
﴿ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۗ﴾ ” وہی ہے جس نے بنائے تمہارے لئے ستارے، تاکہ ان کے ذریعے سے تم راستے معلوم کرو، خشکی اور سمندر کے اندھیروں میں“ جب راستے تم پر مشتبہ ہوجاتے ہیں اور مسافر کا سفر تحیر کا شکار ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو راستے دکھانے کے لئے ستاروں کو تخلیق فرمایا۔ لوگ اپنے مصالح، سفر تجارت اور دیگر سفروں میں ان راستوں کی پہچان کے محتاج ہوتے ہیں۔ کچھ ستارے ایسے ہیں جو ہمیشہ دکھائی دیتے ہیں اور اپنی جگہ نہیں چھوڑتے۔ کچھ ستارے ہمیشہ رواں دواں رہتے ہیں۔ ستاروں کی معرفت رکھنے والے ستاروں کی رفتار کو پہچانتے ہیں، بنا بریں وہ سمتیں اور اوقات معلوم کرسکتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات دلالت کرتی ہیں کہ ستاروں کی رفتار اور ان کے محل و مقام کا علم حاصل کرنا مشروع ہے جسے ستاروں کی رفتار کے علم سے موسوم کیا جاتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر راستوں کے علم سے بہرہ ور ہونا ممکن نہیں۔ ﴿قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ ﴾ ” ہم نے آیات کھول کھول کر بیان کردیں۔“ یعنی ہم نے نشانیوں کو بیان کر کے واضح کردیا ہے اور ہر جنس اور نوع کو ایک دوسری سے ممیز کردیا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی آیات صاف ظاہر اور عیاں ہوگئیں ﴿لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴾” جاننے والوں کے لئے۔“ یعنی ہم نے ان آیات کو ان لوگوں کے سامنے واضح کردیا جو علم اور معرفت سے بہرہ ور ہیں، کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جن کی طرف خطاب کا رخ ہے اور جن سے جواب مطلوب ہے۔ بخلاف جہلاء اور اہل جفا کے جو اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس علم سے منہ موڑتے ہیں جسے لے کر انبیاء و مرسلین مبعوث ہوئے۔ کیونکہ ان کے سامنے بیان کرنا ان کو کوئی فائدہ نہیں دیتا اور ان کے سامنے اس کی تفصیل بیان کرنے سے ان کا التباس رفع نہیں ہوسکتا اور اس کی توضیح سے ان کا اشکار دور نہیں ہوتا۔