سورة الانعام - آیت 52

وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِم مِّن شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ان لوگوں کو اپنی مجلس سے نہ نکالنا جو صبح و شام اپنے پروردگار کو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پکارتے رہتے ہیں۔ (١٩) ان کے حساب میں جو اعمال ہیں ان میں سے کسی کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے، اور تمہارے حساب میں جو اعمال ہیں ان میں سے کسی کی ذمہ داری ان پر نہیں ہے جس کی وجہ سے تم انہیں نکال باہر کرو، اور ظالموں میں شامل ہوجاؤ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ﴾” اور مت دور کیجیے ان لوگوں کو جوصبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں، چاہتے ہیں اسی کا چہرہ“ یعنی دوسروں کی مجالست کی امید میں اہل اخلاص اور اہل عبادت کو اپنی مجلس سے دور نہ کیجیے جو ہمیشہ اپنے رب کو پکارتے رہتے ہیں، ذکر اور نماز کے ذریعے سے اس کی عبادت کرتے ہیں، صبح و شام اس سے سوال کرتے ہیں اور اس سے ان کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کا چہرہ ہے۔ اس مقصد جلیل کے سوا ان کا کوئی اور مقصد نہیں۔ بنا بریں یہ لوگ اس چیز کے مستحق نہیں کہ انہیں اپنے سے دور کیا جائے یا ان سے روگردانی کی جائے بلکہ یہ لوگ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موالات، محبت اور قربت کے زیادہ مستحق ہیں، کیونکہ یہ مخلوق میں سے چنے ہوئے لوگ ہیں اگرچہ یہ فقیر اور نادار ہیں اور یہی درحقیقت اللہ کے ہاں باعزت لوگ ہیں اگرچہ یہ لوگوں کے نزدیک گھٹیا اور کم مرتبہ ہیں۔ ﴿ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِم مِّن شَيْءٍ﴾ ” نہیں ہے آپ پر ان کے حساب میں سے کچھ اور نہ آپ کے حساب میں سے ان پر ہے کچھ“ یعنی ہر شخص کے ذمہ اس کا اپنا حساب ہے، اس کا نیک عمل اس کے لئے ہے اور برے عمل کی شامت بھی اسی پر ہے﴿فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ﴾” پس اگر ان کو دور کرو گے تو ظالموں میں سے ہوجاؤ گے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی پوری طرح پیروی کی، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فقرائے مومنین کی مجلس میں بیٹھتے تو دلجمعی سے ان کے ساتھ بیٹھتے، ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے، ان کے ساتھ حسن خلق اور نرمی کا معاملہ کرتے اور انہیں اپنے قریب کرتے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں زیادہ تر یہی لوگ ہوتے تھے۔ ان آیات کریمہ کا سبب نزول یہ ہے کہ قریش میں سے یا اعراب میں سے چند اجڈ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ ہم تم پر ایمان لائیں اور تمہاری پیروی کریں تو فلاں فلاں شخص جو کہ فقرائے صحابہ میں سے تھے، اپنے پاس سے اٹھا دو، کیونکہ ہمیں شرم آتی ہے کہ عرب ہمیں ان گھٹیا لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھیں۔ ان معترضین کے اسلام لانے اور ان کے اتباع کرنے کی خواہش کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں بھی یہ خیال آیا، مگر اللہ تعالیٰ نے اس آیت اور اس جیسی دیگر آیات کے ذریعے سے آپ کو ایسا کرنے سے منع فرمایا۔