الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمُ ۘ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ ان کو (یعنی خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو) اس طرح پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں (پھر بھی) جن لوگوں نے اپنی جانوں کے لیے گھاٹے کا سودا کر رکھا ہے، وہ اہمان نہیں لاتے۔
جب اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید پر اپنی اور اپنے رسول کی شہادت کا ذکر فرمایا اور اس کے برعکس مشرکین کی شہادت کا بھی ذکر کیا جن کے پاس کوئی علم نہیں، تو اہل کتاب میں سے یہود و نصاریٰ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿يَعْرِفُونَهُ﴾ ” وہ پہچانتے ہیں اسے“ یعنی وہ توحید کی صحت کو جانتے ہیں ﴿كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمُ﴾ ” جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں“ یعنی اس کی صحت میں ان کے ہاں کسی بھی پہلو سے کوئی شک نہیں جیسے انہیں اپنی اولاد کے بارے میں کوئی اشتباہ واقع نہیں ہوتا، خاص طور پر وہ بیٹے جو غالب طور پر اپنے باپ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹتی ہو۔ تب اس کے معنی ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے حق ہونے میں اہل کتاب کو کوئی اشتباہ تھا نہ کوئی شک، کیونکہ ان کے پاس آپ کی بعثت کے بارے میں بشارتیں موجود تھیں اور وہ تمام صفات (جو ان کی کتابوں میں لکھی ہوئی تھیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی پر منطبق ہوتی تھیں نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کے شایان شان تھیں۔ دونوں معنی ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔﴿الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ﴾ ” وہ لوگ جنہوں نے اپنے نفسوں کو نقصان میں ڈالا“ یعنی جس ایمان اور توحید کے لئے ان کے نفوس کو تخلیق کیا گیا تھا انہوں نے اپنے نفوس کو ان سے بے بہرہ کردیا اور بزرگی کے مالک، بادشاہ حقیقی کے فضل سے ان کو محروم کردیا ﴿فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ﴾” پس وہ ایمان نہیں لائیں گے“ پس جب ان کے اندر ایمان ہی موجود نہیں تو اس خسارے اور شر کے بارے میں مت پوچھ جو ان کو حاصل ہوگا۔