هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن طِينٍ ثُمَّ قَضَىٰ أَجَلًا ۖ وَأَجَلٌ مُّسَمًّى عِندَهُ ۖ ثُمَّ أَنتُمْ تَمْتَرُونَ
وہی ذات ہے جس نے تم کو گیلی مٹی سے پیدا کیا، پھر (تمہاری زندگی کی) ایک میعاد مقرر کردی، اور (دوبارہ زندہ ہونے کی) ایک متعین میعاد اسی کے پاس ہے (١) پھر بھی تم شک میں پڑے ہوئے ہو۔
﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن طِينٍ ﴾ ” وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا“ یعنی تمہارا اور تمہارے باپ کا مادہ مٹی سے تخلیق کیا گیا ہے ﴿ثُمَّ قَضَىٰ أَجَلًا﴾ ” پھر ایک مدت مقرر کردی“ یعنی اس دنیا میں رہنے کے لئے تمہارے لئے ایک مدت مقرر کردی اس مدت میں تم اس دنیا سے فائدہ اٹھاتے ہو اور رسول بھیج کر تمہارا امتحان لیا جاتا ہے اور تمہاری آزمائش کی جاتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا : ﴿لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾(الملک :67؍2) ” تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔“ ﴿وَأَجَلٌ مُّسَمًّى عِندَهُ ۖ﴾ ” اور ایک مدت مقرر ہے اللہ کے نزدیک“ اس مدت مقررہ سے مراد آخرت ہے، بندے اس دنیا سے آخرت میں منتقل ہوں گے پھر اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اچھے برے اعمال کی جزا دے گا﴿ثُمَّ﴾ پھر اس کامل بیان اور دلیل قاطع کے باوجود ﴿أَنتُمْ تَمْتَرُونَ﴾ ” تم شک کرتے ہو‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ کے وعدو وعید اور قیامت کے دن جزا و سزا کے وقوع کا انکار کرتے ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اندھیروں ﴿الظُّلُمَاتِ﴾ کو ان کے کثرت مواد اور ان کے تنوع کی بنا پر جمع کے صیغے میں بیان فرمایا ہے اور اجالے ﴿وَالنُّورَ﴾ کو احد استعمال کیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والا راستہ ایک ہی ہوتا ہے، اس میں تعدد نہیں ہوتا اور یہ وہ راستہ ہے جو حق، علم اور اس پر عمل کو متضمن ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ﴾ (الانعام :6؍153) ” اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے اور تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو ورنہ تم اللہ کے راستے سے الگ ہوجاؤ گے۔ “