مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
میں نے ان لوگوں سے اس کے س وا کوئی بات نہیں کہی جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا، اور وہ یہ کہ : اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار۔ اور جب تک میں ان کے درمیان موجود رہا، میں ان کے حالات سے واقف رہا۔ پھر جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ خود ان کے نگراں تھے، اور آپ ہر چیز کے گواہ ہیں۔
پھر مسیح علیہ السلام نے تصریح فرمائی کہ انہوں نے بنی اسرائیل کے سامنے صرف وہی چیز بیان کی تھی کہ جس کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا ﴿مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ﴾” میں نے ان سے کچھ نہیں کہا بجز اس کے جس کا تو نے مجھے حکم دیا۔“ پس میں تو تیرا تابع بندہ ہوں مجھے تیری عظمت کے سامنے دم مارنے کی جرأت نہیں ﴿أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ﴾ ” یہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے۔“ میں نے تو صرف الہ واحد کی عبادت اور اخلاص دین کا حکم دیا تھا جو کہ اس بات کا متضمن ہے کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنانے سے باز رہیں اور اس بیان کا متضمن ہے کہ میں تو اپنے رب کی ربوبیت کا محتاج ہوں۔ وہ جیسے تمہارا رب ہے ویسے ہی میرا بھی رب ہے۔ ﴿ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ﴾ ” اور میں ان پر گواہ رہا جب تک میں ان میں موجود رہا“ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ کون اس بات پر قائم رہا اور کون اس پر قائم نہ رہ سکا﴿فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ﴾” پس جب تو نے مجھ کو (آسمان پر) اٹھا لیا تو تو ہی ان کی خبر رکھنے والا تھا۔“ یعنی ان کے بھیدوں اور ضمائر کو جاننے والا ﴿وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ﴾” اور تو ہر چیز سے خبردار ہے“ یعنی تو چونکہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے، تو سننے والا، ہر چیز کو دیکھنے والا ہے اس لئے تو ہر چیز پر شاہد ہے۔ تیرا علم تمام معلومات کا احاطہ کئے ہوئے ہے تیری سماعت مسموعات کو سن رہی ہے اور تیری بصر تمام مرئیات کو دیکھ رہی ہے۔ پس تو ہی اپنے بندوں کو اپنے علم کے مطابق خیر و شر کی جزا دے گا۔