يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اے ایمان والو ! تم اپنی فکر کرو۔ اگر تم صحیح راستے پر ہوگے تو جو لوگ گمراہ ہیں وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ (٧٢) اللہ ہی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے، اس وقت وہ تمہیں بتائے گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو۔
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ ﴾ ” اے ایمان والو ! تم پر لازم ہے فکر اپنی جان کا“ یعنی اپنے نفوس کی اصلاح، ان کو منزل کمال تک پہنچانے اور ان کو صراط مستقیم پر گامزن کرنے کی کوشش کرو، کیونکہ اگر تم نے اپنی اصلاح کرلی تو وہ شخص تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا جو راہ راست سے بھٹک گیا ہے اور دین قیم کے راستے کو اختیار نہیں کرتا۔ وہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت نہیں کرتی کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ چھوڑ دینے سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ کیونکہ خود بندے کی ہدایت بھی اس وقت تک تکمیل نہیں پاتی جب تک کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جو ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے اسے ادا نہیں کرتا۔ ہاں ! اگر وہ اپنے ہاتھ اور زبان سے برائی کا انکار کرنے پر قادر نہیں تو اپنے دل میں اس برائی کو برا سمجھے۔ تب کسی دوسرے کی گمراہی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ﴿إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا ﴾ ” تم سب کو اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔“ یعنی قیامت کے دن تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹو گے اور اس کے سامنے اکٹھے ہو گے ﴿فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾” وہ تم کو تمہارے سب کاموں سے آگاہ کرے گا۔“ یعنی اچھے اور برے جو عمل بھی کرتے رہے ہو، اللہ تعالیٰ تمہیں ان کے بارے میں آگاہ کرے گا۔