سورة المآئدہ - آیت 101

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے ایمان والو ! ایسی چیزوں کے بارے میں سوالات نہ کیا کرو جو اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں، اور اگر تم ان کے بارے میں ایسے وقت سوالات کرو گے جب قرآن نازل کیا جارہا ہو تو وہ تم پر ظاہر کردی جائیں گی۔ (٦٩) (البتہ) اللہ نے پچھلی باتیں معاف کردی ہیں۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا بردبار ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اہل ایمان بندوں کو ایسی چیزوں کے بارے میں سوال کرنے سے منع کرتا ہے جن کو اگر ان کے سامنے بیان کردیا جائے تو ان کو بری لگیں گی اور ان کو غمزدہ کردیں گی مثلاً بعض مسلمانوں نے اپنے آباء و اجداد کے بارے میں سوال کیا تھا کہ آیا وہ جنت میں ہیں یا جہنم میں۔ اگر اس قسم کے سوال پر سائل کو واضح جواب دیا جائے تو بسا اوقات اس میں بھلائی نہیں ہوتی مثلاً غیر واقع امور کے بارے میں ان کا سوال کرنا، یا ایسا سوال کرنا جس کی بنا پر کوئی شرعی شدت مترتب ہو اور بسا اوقات اس سوال کی وجہ سے امت حرج میں مبتلا ہوجاتی ہے یا کوئی اور لا یعنی سوال کرنا۔ یہ سوالات اور اس قسم کے دیگر سوالات ممنوع ہیں۔ رہا وہ سوال جس کے ساتھ مذکورہ بالا چیزوں کا تعلق نہ ہو، تو وہ مامور بہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾(النحل :16؍43) ” اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔ “ ﴿وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا ۗ ﴾ ” اور اگر پوچھو گے یہ باتیں، ایسے وقت میں کہ قرآن نازل ہو رہا ہے، تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی“ یعنی جب تمہارا سوال اس کے محل نزول سے موافقت کرے اور تم اس وقت سوال کرو جب تم پر قرآن نازل کیا جا رہا ہو اور تم کسی آیت میں اشکال کے بارے میں سوال کرو یا کسی ایسے حکم کے بارے میں سوال کرو جو تم پر مخفی رہ گیا ہو اور یہ سوال کسی ایسے وقت پر ہو جب آسمان سے وحی کے نزول کا امکان ہو تو تم پر ظاہر کردیا جائے گا۔ یعنی اس کو تمہارے سامنے واضح کردیا جائے گا ورنہ جس چیز کے بارے میں اللہ تعالیٰ خاموش ہے تم بھی خاموش رہو۔ ﴿ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا﴾ ” اللہ نے ایسی باتوں (کے پوچھنے) سے درگزر فرمایا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو معاف کرتے ہوئے سکوت سے کام لیا۔ پس وہ معاملہ جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سکوت اختیار کیا ہو وہ معاف ہے اور مباحات کے زمرے میں آتا ہے۔ ﴿وَاللّٰهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾” اور اللہ بخشنے والا بردبار ہے۔“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیشہ سے مغفرت کی صفت سے موصوف، حلم اور احسان میں معروف ہے۔ پس اس سے اس کی مغفرت اور احسان کا سوال کرو اور اس سے اس کی رحمت اور رضا طلب کرو۔