قُل لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ ۚ فَاتَّقُوا اللَّهَ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
(اے رسول ! لوگوں سے) کہہ دو کہ ناپاک اور پاکیزہ چیزیں برابر نہیں ہوتیں، چاہے تمہیں ناپاک چیزوں کی کثرت اچھی لگتی ہو۔ (٦٨) لہذا اے عقل والو ! اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔
﴿قُل﴾ ” کہہ دیجیے“ یعنی لوگوں کو شر سے ڈراتے ہوئے اور ان کو بھلائی کی ترغیب دیتے ہوئے کہہ دیجیے ﴿ لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ﴾ ” ناپاک چیزیں اور پاک چیزیں برابر نہیں ہوتیں۔“ یعنی ہر چیز میں اچھے اور برے برابر نہیں ہوسکتے۔ ایمان اور کفر، اطاعت اور معصیت، اہل جنت اور اہل جہنم، اعمال خبیثہ اور اعمال صالحہ برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح حرام مال اور حلال مال کے درمیان کوئی مساوات نہیں۔ ﴿وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ﴾” اگرچہ ناپاک کی کثرت آپ کو بھلی لگے“ کیونکہ ناپاک چیز کی کثرت اپنے مالک کو کوئی فائدہ نہیں دیتی بلکہ دین و دنیا میں اسے نقصان دیتی ہے ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾” پس اے عقل مندو ! اللہ سے ڈرو، تاکہ تم فلاح پاؤ“ پس اللہ تعالیٰ نے عقل مندوں، یعنی پوری عقل اور کامل رائے کے حامل لوگوں کو حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے خطاب کا رخ انہی لوگوں کی طرف ہے۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی پروا کی جاتی ہے اور انہی میں خیر کی امید ہوتی ہے اور ان کو آگاہ فرمایا ہے کہ فلاح تقویٰ پر موقوف ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے اوامرو نواہی میں اس کی موافقت کا نام ہے۔ پس جس نے تقویٰ اختیار کیا اس نے پوری فلاح پالی۔ جس نے تقویٰ کو ترک کردیا، اس کے نصیب میں خسارہ آیا اور نفع سے محروم رہ گیا۔