أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ ۖ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کردیا گیا ہے، تاکہ وہ تمہارے لیے اور قافلوں کے لیے فائدہ اٹھانے کا ذریعہ بنے، لیکن جب تک تم حالت احرام میں ہو تم پر خشکی کا شکار حرام کردیا گیا ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو جس کی طرف تم سب کو جمع کر کے لے جایا جائے گا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے جان بوجھ کر شکار مارنے پر اس کی سزا کی صراحت کی ہے باوجود اس بات کے کہ بدلہ تو ہر غلطی کا ضروری ہوتا ہے، چاہے اس کا مرتکب جان بوجھ کر کرے یا غلطی سے، جیسا کہ شرعی قاعدہ ہے کہ جان اور مال کو تلف کرنے والے پر ضمان لازم ہے خواہ کسی بھی حال میں اس سے یہ اتلاف صادر ہوا ہو جبکہ یہ اتلاف ناحق ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر بدلہ اور اتنقام مرتب کیا ہے اور یہ سب جان بوجھ کر کرنے والے کے لئے ہے، لیکن غلطی سے کرنے والے کے لئے سزا نہیں ہے، صرف بدلہ ہے۔ یہی جمہور علماء کی رائے ہے، مگر صحیح وہی ہے جس کی آیت کریمہ نے تصریح کی ہے کہ جس طرح بغیر جانے بوجھے اور بغیر ارادے کے شکار مارنے والے پر کوئی گناہ نہیں اسی طرح اس پر جزا بھی لازم نہیں ہے۔ چونکہ شکار کا اطلاق بری اور بحری دونوں قسم کے شکار پر ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے سمندری شکار کو مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے فرمایا : ﴿أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ﴾ ” احرام کی حالت میں تمہارے لئے سمندر کا شکار کرنا اور اس کا کھانا حلال ہے“ اور ” سمندر کے شکار“ سے مراد سمندر کے زندہ جانور ہیں اور (طعام) ” اس کے کھانے“ سے مراد سمندر میں مرنے والے سمندری جانور ہیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ مرے ہوئے بحری جانور بھی حلال ہیں۔ ﴿مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ﴾ ” تمہارے فائدے کے لئے اور مسافروں کے لئے“ یعنی اس کی اباحت میں تمہارے لئے فائدہ ہے تاکہ تم اور تمہارے وہ ساتھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں جو تمہارے ساتھ سفر کرتے ہیں ﴿وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا﴾ ” اور جب تک تم احرام کی حالت میں ہو، تم پر خشکی (جنگل) کا شکار حرام ہے۔“ یہاں لفظ ’’شکار“ سے یہ مسئلہ اخذ کیا جاتا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ شکار کیا ہوا جانور جنگلی ہو، کیونکہ پالتو اور گھریلو جانور پر شکار کا اطلاق نہیں ہوتا۔ نیز یہ ایسا جانور ہو جس کا گوشت کھایا جاتا ہو کیونکہ جس جانور کا گوشت کھایا نہ جاتا ہو اس کو شکار نہیں کیا جاتا اور نہ اس پر ” شکار“ کا اطلاق ہی کیا جاتا ہے۔ ﴿وَاتَّقُوا اللَّـهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾” اور اس اللہ سے ڈرو جس کی طرف تم اکٹھے کئے جاؤ گے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا حکم دیا ہے اس پر عمل کر کے اور جس چیز سے روکا ہے اس کو ترک کر کے تقویٰ اختیار کرو اور اپنے اس علم سے حصول تقویٰ میں مدد لو کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے پاس اکٹھا کیا جائے گا اور وہ تمہیں اس بات کی جزا دے گا کہ آیا تم نے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کیا تھا۔ تب وہ تمہیں بہت زیادہ ثواب سے نوازے گا یا اگر تقویٰ کو اختیار نہیں کیا تب اس صورت میں وہ تمہیں سخت سزا دے گا۔