مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ ۖ كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انظُرْ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
مسیح ابن مریم تو ایک رسول تھے، اس سے زیاد کچھ نہیں، ان سے پہلے (بھی) بہت سے رسول گزر چکے ہیں، اور ان کی ماں صدیقہ تھیں۔ یہ دونوں کھانا کھاتے تھے (٥٠) دیکھو ! ہم ان کے سامنے کس طرح کھول کھول کر نشانیاں واضح کر رہے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھو کہ ان کو اوندھے منہ کہاں لے جایا جارہا ہے۔ (٥١)
پھر اللہ تعالیٰ نے جناب مسیح علیہ السلام اور ان کی والدہ ماجدہ کی حقیقت بیان فرمائی جو کہ حق ہے۔ فرمایا : ﴿مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ﴾ ” نہیں ہیں مسیح ابن مریم مگر ایک رسول ہی، ان سے پہلے بھی کئی رسول گزرے“ یعنی جناب مسیح کے معاملے کی غایت و انتہا یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں اور رسولوں میں سے ایک ہیں جن کو کسی معاملے میں کوئی اختیار نہیں اور نہ وہ تشریع کا کوئی اختیار رکھتے ہیں سوائے اس چیز کے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کو مبعوث فرمایا ہے۔ جناب مسیح علیہ السلام بھی ان رسولوں کی جنس سے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں ان کو دوسرے رسولوں پر کوئی ایسی فضیلت حاصل نہیں جو انہیں بشریت سے نکال کر ربوبیت کے مرتبے پر فائز کر دے ﴿وَأُمُّهُ ﴾ ” اور ان کی ماں“ یعنی مریم علیہا السلام ﴿صِدِّيقَةٌ﴾ ” صدیقہ ہیں۔“ یعنی جناب مریم علیہا السلام کی بھی غایت و انتہا یہ ہے کہ صد یقین میں ان کا شمار ہوتا ہے جو انبیاء و مرسلین کے بعد مخلوق میں سب سے بلند مرتبے پر فائز ہوتے ہیں۔ صدیقیت وہ علم نافع ہے جس کا ثمرہ یقین اور عمل صالح ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جناب مریم نبی نہ تھیں۔ ان کا بلند ترین حال صدیقیت ہے اور فضیلت اور شرف کے لئے یہی کافی ہے۔ اسی طرح عورتوں میں سے کوئی عورت نبی مبعوث نہیں ہوئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کامل تر صنف یعنی مردوں ہی میں رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِم﴾ (یوسف :12؍109) ” اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی بھیجے تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ “ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام انبیاء و مرسلین کی جنس میں سے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں اور ان کی والدہ ماجدہ صدیقہ تھیں تو نصاریٰ نے کس بنا پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان دونوں کو بھی الٰہ قرار دے دیا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ﴾” وہ دونوں کھانا کھاتے تھے“ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ دونوں اللہ تعالیٰ کے فقیر اور محتاج بندے تھے جیسا کہ انسان کھانے پینے کے محتاج ہوتے ہیں۔ پس اگر جناب عیسیٰ اور مریم الٰہ ہوتے تو وہ کھانے پینے سے بے نیاز ہوتے اور کسی چیز کے بھی محتاج نہ ہوتے۔ کیونکہ معبود بے نیاز اور قابل تعریف ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ دلیل اور برہان واضح کردی تو فرمایا : ﴿اُنظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ﴾” کہو ہم کیسے ان کے لئے آیات بیان کرتے ہیں“ جو حق کو واضح کرتی ہیں اور یقین کو منکشف کرتی ہیں۔ بایں ہمہ انہیں کوئی چیز فائدہ نہیں دیتی بلکہ وہ اپنی بہتان طرازیوں، جھوٹ اور افترا بردازی پر بضد ہیں اور یہ ان کا ظلم اور عناد ہے۔