سورة المآئدہ - آیت 43

وَكَيْفَ يُحَكِّمُونَكَ وَعِندَهُمُ التَّوْرَاةُ فِيهَا حُكْمُ اللَّهِ ثُمَّ يَتَوَلَّوْنَ مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا أُولَٰئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور یہ کیسے تم سے فیصلہ لینا چاہتے ہیں جبکہ ان کے پاس تورات موجود ہے جس میں اللہ کا فیصلہ درج ہے؟ پھر اس کے بعد (فیصلے سے) منہ بھی پھیر لیتے ہیں (٣٨) دراصل یہ ایمان والے نہیں ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ آیت کریمہ لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے اور عدل کے ساتھ فیصلہ کرنا اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند ہے۔ پھر ان پر تعجب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَكَيْفَ يُحَكِّمُونَكَ وَعِندَهُمُ التَّوْرَاةُ ۔۔۔ بِالْمُؤْمِنِينَ ﴾” اور وہ کس طرح آپ کو منصف بنائیں گے، جب کہ ان کے پاس تورات ہے، جس میں اللہ کا حکم ہے، پھر اس کے بعد وہ پھرجاتے ہیں اور وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں“ اس لئے کہ اگر وہ مومن ہوتے اور ایمان کے تقاضے اور اس کے موجبات پر عمل کرتے، تو اللہ کے اس حکم سے اعراض نہ کرتے جو تو رات میں موجود ہے اور جو ان کے سامنے ہے۔ (لیکن اس سے اعراض کر کے جو آپ کے اعراض کر کے جو آپ کے پاس آئے ہیں تو اس امید پر کہ) شاید جو کچھ آپ کے پاس ہے ان کی خواہشات کے مطابق ہو اور جب آپ نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق فیصلہ کردیا جو ان کے پاس ہے، تو وہ نہ صرف اس بات پر راضی نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے اس سے روگردانی کی اور اس کو ناپسند کیا۔ ﴿وَمَا أُولَـٰئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” اور یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے۔“ یعنی وہ لوگ جن کے یہ اعمال ہیں وہ مومن نہیں، یعنی یہ اہل ایمان کا رویہ نہیں اور نہ یہ لوگ مومن کہلانے کے مستحق ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنی خواہشات نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے اور احکام ایمان کو اپنی خواہشات کے تابع کر رکھا ہے۔