فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ
آخر کار اس کے نفس نے اس کو اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کرلیا، چنانچہ اس نے اپنے بھائی کو قتل کر ڈالا، اور نامرادوں میں شامل ہوگیا۔
وہ مجرم اس جرم سے پیچھے ہٹانہ گھبرایا اور قتل کے عزم جازم پر قائم رہا حتیٰ کہ اس کے نفس نے اس کے بھائی کے قتل کی ترغیب دی جس کے احترام کا تقاضا شریعت اور فطرت دونوں کرتے ہیں ﴿فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴾” پس اس نے اسے قتل کردیا اور وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگیا“ یعنی وہ دنیا و آخرت میں خسارہ پانے والوں میں شامل ہوگیا اور اس نے ہر قاتل کے لئے ایک سنت رائج کردی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” جس کسی نے کوئی بری سنت رائج کی تو اس پر اس برائی کے گناہ کا بوجھ اور ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی پڑے گا جو قیامت تک اس بری سنت پر عمل کریں گے۔“ [صحيح مسلم، الزكاة، باب الحث علي الصدقة..... الخ، حديث: 1017] بنا بریں ایک صحیح حدیث میں وارد ہے ” دنیا میں جو بھی قتل کرتا ہے تو اس خون کے گناہ کا کچھ حصہ آدم کے پہلے بیٹے کے حصہ میں بھی جاتا ہے کیونکہ وہ پہلا شخص ہے جس نے قتل کے جرم کی ابتدا کی۔‘‘ [جامع الترمذي، العلم، باب ما جاء أن الدال علي الخير كفاعله، حديث: 2673]