إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
جو لوگ (پیغمبر اسلام پر) ایمان لاچکے ہیں وہ ہوں یا وہ لوگ ہوں جو یہودی ہیں یا وہ لوگ ہوں جو یہودی ہیں یا نصاری اور صابی ہوں (کوئی ہو اور کسی گروہ بندی میں سے ہو) لیکن جو کوئی بھی خدا پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس کے اعمال بھی اچھے ہوئے تو وہ اپنے ایمان و عمل کا اجر اپنے پروردگار سے ضرور پائے گا۔ اس کے لیے نہ تو کسی طرح کا کھٹکا ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی
پھر اہل کتاب کے مختلف گروہوں کے درمیان محاکمہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ حکم خاص طور پر اہل کتاب کے لئے ہے، کیونکہ صابئین کے بارے میں صحیح ترین رائے یہ ہے کہ یہ نصاریٰ ہی کا ایک فرقہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس امت کے اہل ایمان، یہود و نصاریٰ اور صابئین میں سے جو کوئی اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اپنے رسولوں کی تصدیق کی ان کے لئے اجر عظیم اور امن ہے۔ ان پر کسی قسم کا خوف ہوگا نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔ ان میں سے جس کسی نے اللہ تعالیٰ، اس کے انبیاء و رسل اور یوم آخرت کا انکار کیا تو ان کا حال مذکورہ بالا لوگوں کے حال کے برعکس ہوگا، پس وہ خوف اور غم سے دوچار ہوں گے۔ (مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں) صحیح مسلک یہ ہے کہ ان فرقوں کے مابین یہ محاکمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کی نسبت سے نہیں بلکہ ان کی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ہے۔ کیونکہ یہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل ان کے احوال کی خبر ہے۔ یہ قرآن کا طریقہ ہے۔ جب سیاق آیات کے بارے میں بعض نفوس و ہم کا شکار ہوجائیں تو لازمی طور پر وہ کوئی ایسی چیز ضرور پائیں گے جو ان کے وہم کو زائل کر دے۔ کیونکہ یہ کلام ایسی ہستی کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جو اشیاء کے وجود میں آنے سے قبل ہی ان کو جانتی ہے۔ اس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بنی اسرائیل کا ذکر مذمت کے طور پر کیا ہے اور ان کے گناہوں اور برائیوں کا تذکرہ کیا ہے تو بسا اوقات دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس مذمت میں تمام بنی اسرائیل شامل ہیں۔ اس لئے اللہ نے ایسے لوگوں کے بارے میں واضح کردیا جو اس مذمت میں شامل نہیں۔ نیز چونکہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کا خاص طور پر ذکر کیا ہے جس سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ باتیں صرف بنی اسرائیل ہی سے متعلق ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ایک عام حکم بیان کردیا جو تمام طوائف کو شامل ہے تاکہ حق واضح اور وہم و اشکال دور ہوجائے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی کتاب میں ایسی چیزیں بیان کی ہیں جو عقلوں کو متحیر کردیتی ہیں۔