يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
اے ایمان والو ! اللہ نے تم پر جو انعام فرمایا اس کو یاد کرو۔ جب کچھ لوگوں نے ارادہ کیا تھا کہ تم پر دست درازی کریں، تو اللہ نے تمہیں نقصان پہنچانے سے ان کے ہاتھ روک دییے (١٢) اور (اس نعمت کا شکر یہ ہے کہ) اللہ کا رعب دل میں رکھتے ہوئے عمل کرو، اور مومنوں کو صرف اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں سے اپنی عظیم نعمتوں کا ذکر کرتا ہے اور انہیں ترغیب دیتا ہے کہ وہ بھی دل و زبان سے ان نعمتوں کا ذکر کیا کریں۔ جس طرح وہ اپنے دشمنوں کے قتل، ان کے مال کو مال غنیمت بنانے، ان کے شہروں کو فتح کرنے اور ان کے غلام بنانے کو اللہ تعالیٰ کی نعمت قرار دیتے ہیں اسی طرح وہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا بھی اعتراف کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارے ساتھ لڑنے سے روکا اور ان کی سازشوں اور چالوں کو جو ان کے سینوں میں تھیں، انہی پر لوٹا دیا۔ اس لئے کہ دشمنوں نے ایک سازش تیار کی اور ان کا گمان تھا کہ وہ اسے بروئے کار لانے میں کامیاب ہوں گے۔ لیکن جب وہ مومنوں کی خلاف اس سازش میں کامیاب نہیں ہوئے، تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کی مدد ہے، اس لئے ان کو چاہئے کہ وہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں، اس کی عبادت اور اس کا ذکر کریں۔ کافروں، منافقوں اور باغیوں میں سے جن لوگوں نے بھی اہل ایمان کے ساتھ کسی برائی کا ارادہ کیا، یہ آیت کریمہ ان سب کو شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھا۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ اپنے دشمنوں پر فتح حاصل کرنے کے لئے اور دیگر تمام امور میں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں، اس لئے فرمایا : ﴿وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴾ ” اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔“ یعنی وہ اپنے دینی اور دنیاوی مصالح کے حصول میں اللہ تعالیٰ ہی پر توکل اور اعتماد کریں، اپنی قوت اور طاقت پر بھروسہ نہ کریں اور اپنے محبوب امور کے حصول میں صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں اور بندے کے ایمان کے مطابق ہی، اس کا اللہ پر توکل ہوتا ہے اور یہ دل کے ان واجبات میں سے ہے جن پر اتفاق ہے۔