يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا ۚ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ۚ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اے ایمان والو ! نہ اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی کرو، نہ حرمت والے مہینے کی، نہ ان جانوروں کی جو قربانی کے لیے حرم لے جائے جائیں، نہ ان پٹوں کی جو ان کے گلے میں پڑے ہوں، اور نہ ان لوگوں کی جو اللہ کا فضل اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کی خاطر بیت حرام کا ارادہ لے کر جارہے ہوں۔ اور جب تم احرام کھول دو تو شکار کرسکتے ہو۔ اور کسی قوم کے ساتھ تمہاری یہ دشمنی کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم (ان پر) زیادتی کرنے لگو (٥) اور نیکی اور تقوی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو، اور گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّـهِ ﴾ ” اے ایمان والو ! اللہ کی نشانیوں کو حلال نہ سمجھو“ یعنی اللہ تعالیٰ کی ان محرمات کو حلال نہ ٹھہرا لو جن کی تعظیم کا اور ان کے عدم فعل کا اس نے تمہیں حکم دیا ہے۔ پس یہ ممانعت، ان کے فعل کی ممانعت اور ان کے حلال ہونے کا اعتقاد رکھنے کی ممانعت پر مشتمل ہے۔ یعنی یہ ممانعت فعل قبیح اور اس کے حلال ہونے کا اعتقاد رکھنے کو شامل ہے اس ممانعت میں محرمات احرام اور محرمات حرم بھی داخل ہیں۔ اس میں وہ امور بھی داخل ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں آتا ہے ﴿وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ ﴾ ” اور نہ ادب کے مہینے کی۔“ یعنی حرمت کے مہینے میں لڑائی اور دیگر مظالم کا ارتکاب کر کے اس کی ہتک حرمت نہ کرو، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّـهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّـهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ﴾(التوبة:9؍36) ” بے شک اللہ کے نزدیک اس کی کتاب میں مہینے گنتی میں بارہ ہیں، اس روز سے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں۔ یہی مضبوط دین ہے۔ تم ان مہینوں میں (نا حق لڑائی کر کے) اپنے آپ پر ظلم نہ کرو۔ “ جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ حرام مہینوں میں لڑائی کی تحریم منسوخ ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ﴾(التوبہ :9؍5) ” جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ ان کو قتل کرو“ اور اس کے علاوہ دیگر آیات جو عموم پر دلالت کرتی ہیں جن میں کفار کے ساتھ مطلق قتال کا حکم دیا گیا ہے اور اس قتال سے پیچھے رہ جانے پر وعید سنائی ہے، نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذیقعد کے مہینے میں اہل طائف کے خلاف جنگ کی اور ذیقعد حرام مہینوں میں سے ہے۔ دیگر اہل علم کہتے ہیں کہ حرمت کے مہینوں میں لڑائی کی ممانعت منسوخ نہیں ہے اس کی دلیل یہی مذکورہ آیت کریمہ ہے۔ جس میں خاص طور پر لڑائی کی ممانعت کی گئی ہے اور انہوں نے اس بارے میں وارد مطلق نصوص کو مقید پر محمول کیا ہے۔ اور بعض علماء نے اس میں یہ تفصیل بیان کی ہے کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ابتدا کرنا جائز نہیں، البتہ اگر جنگ پہلے سے جاری ہو جبکہ اس کی ابتدا حلال مہینوں میں ہوئی ہو تو حرمت کے مہینوں میں اس کی تکمیل جائز ہے اور انہوں نے اہل طائف کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ کو اسی پر محمول کیا ہے، کیونکہ ان کے ساتھ جنگ کی ابتدا حنین میں ہوئی جو شوال کے مہینے میں ہوئی تھی۔ یہ سب اس جنگ کے بارے میں ہے جس میں مدافعت مقصود نہ ہو۔ جہاں تک دفاعی جنگ کا معاملہ ہے جبکہ وہ کفار کی طرف سے شروع کی گئی ہو تو مسلمانوں کو اپنے دفاع میں حرمت والے مہینوں میں بھی جنگ لڑنا جائز ہے اور اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے۔ ﴿وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ ﴾ ” اور نہ قربانی کے جانوروں کی“ یعنی تم اس ﴿ الْهَدْيَ ﴾ ” قربانی“ کو جو حج یا عمرہ یا دیگر ایام میں بیت اللہ کو بھیجی جا رہی ہو، حلال نہ ٹھہرا لو۔ اس کو قربان گاہ تک پہنچنے سے مت روکو، نہ اسے چوری وغیرہ کے ذریعے سے حاصل کرنے کی کوشش کرو، نہ اس کے بارے میں کوتاہی کرو اور نہ اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ لادو۔ مباداکہ وہ قربان گاہ تک پہنچنے سے پہلے ہی تلف ہوجائے بلکہ اس ہدی کی اور اس کو لانے والے کی تعظیم کرو۔ ﴿وَلَا الْقَلَائِدَ﴾” اور نہ ان جانوروں کی (جو اللہ کی راہ میں نذر کر دئیے گئے ہوں اور) جن کے گلوں میں پٹے بندھے ہوں۔“ یہ ہدی کی ایک خاص قسم ہے یہ ہدی کا وہ جانور ہے جس کے لئے قلادے غیرہ تیار کر کے صرف اس لئے اس کی گردن میں ڈالے گئے ہوں تاکہ اس سے ظاہر ہو کہ یہ اللہ کے شعائر ہیں نیز اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ لوگ اس کی پیروی کریں اور اس سے سنت کی تعلیم بھی مقصود ہے۔ تاکہ لوگ پہچان لیں کہ یہ ہدی کا جانور ہے لہٰذا حرمت کا حامل ہے۔ بنا بریں ہدی کو علامت کے طور پر قلادے وغیرہ پہنانا سنت ہے اور شعائر مسنونہ میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ ﴿وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ ﴾ ” اور نہ ان لوگوں کی جو عزت کے گھر (یعنی بیت اللہ) کو جا رہے ہوں۔“ یعنی جو بیت اللہ کا قصد رکھتے ہیں ﴿يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا ﴾ ” اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہوں“ یعنی جو بیت اللہ پہنچنے کا قصد رکھتا ہے اور وہ تجارت اور جائز ذرائع اکتساب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کا ارادہ لئے ہوئے ہے یا وہ حج، عمرہ، طواف، بیت اللہ، نماز اور مختلف انواع کی دیگر عبادات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ارادہ رکھتا ہے، اس کے ساتھ برائی سے پیش آؤ نہ اس کی اہانت کرو، بلکہ اس کی تکریم کرو اور تمہارے رب کے گھر کی زیارت کے لئے جانے والوں کی تعظیم کرو۔ اس حکم میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ بیت اللہ کی طرف جانے والے تمام راستوں کو پرامن بنایا جائے تاکہ بیت اللہ کو جانے والے بڑے اطمینان سے اللہ کے گھر کو جا سکیں، انہیں راستے میں قتل و غارت اور اپنے اموال کے بارے میں کسی چوری ڈاکے اور کسی ظلم کا خوف نہ ہو۔ اس آیت کریمہ کے عموم کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد خاص کرتا ہے : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا ﴾(التوبة:9؍28)” اے ایمان لانے والے لوگو ! مشرک تو ناپاک ہیں وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں۔“ لہٰذا مشرک حرم میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اس آیت کریمہ میں بیت اللہ کی طرف جانے والے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی رضا کا قصد رکھنے والے سے تعرض کرنے کی ممانعت کی تخصیص اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص اس نیت سے بیت اللہ کا قصد کرتا ہے کہ گناہوں کے ذریعے سے اس کی ہتک حرمت کا ارتکاب کرے، اس کو اللہ تعالیٰ کے گھر میں فساد پھیلانے سے روکا جائے کیونکہ اسے اس فعل سے روکنا حرم کے احترام کی تکمیل ہے، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيم﴾ٍ(الحج:22؍25)” اور جو کوئی اس میں ظلم سے کج روی کرنا چاہے ہم اسے درد ناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔ “ چونکہ اللہ تعالیٰ نے حالت احرام میں شکار کرنے سے منع کیا ہے، اس لئے فرمایا :﴿وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ﴾ ” اور جب احرام اتار دو تو (پھر اختیار ہے کہ) شکار کرو۔“ یعنی جب تم حج اور عمرہ کے احرام کھول دو تو تمہارے لئے شکار کرنا جائز ہے اور اب اس کی تحریم ختم ہوگئی ہے۔ تحریر کے بعد کا حکم محرمہ اشیاء کو ان کی اس حالت کی طرف لوٹا دیتا ہے جو تحریم کے حکم سے پہلے تھی۔ ﴿وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُواۘ ﴾” اور لوگوں کی دشمنی، اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا، تمہیں زیادتی کرنے پر آمادہ نہ کرے۔“ یعنی کسی قوم کا بغض، عداوت اور تم پر ان کا ظلم و تعدی کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام تک جانے سے روکا تھا تمہیں ان پر ظلم و تعدی کرنے پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان سے بدلہ لے کر اپنے غصے کو ٹھنڈا کرو، کیونکہ بندے پر ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا التزام کرنا اور عدل و انصاف کا راستہ اختیار کرنا فرض ہے۔ خواہ اس کے خلاف جرم، ظلم یا زیادتی کا ارتکاب ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔ جس نے اس پر جھوٹا الزام لگایا، اس پر جھوٹا الزام لگانا اور جس نے اس کے ساتھ خیانت کی، اس کے ساتھ خیانت کرنا کسی حالت میں جائز نہیں۔ ﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ﴾ ” نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو۔“ یعنی تم نیکیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔ یہاں ﴿ الْبِرِّ ﴾ ” نیکی“ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ضمن میں ان تمام ظاہری اور باطنی اعمال کو شامل ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور وہ ان پر راضی ہے۔ اس مقام پر تقویٰ ان تمام ظاہری اور باطنی اعمال کو ترک کرنے کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند ہیں بھلائی کی ہر خصلت جس کے فعل کا حکم یا برائی کی ہر خصلت جسے ترک کرنے کا حکم ہے بندہ خود بھی اس کے فعل پر مامور ہے اور اسے اپنے مومن بھائیوں کے ساتھ، اپنے قول و فعل کے ذریعے سے جو ان کو اس بھلائی پر آمادہ کرے یا اس میں نشاط پیدا کرے، تعاون کرنے کا حکم ہے۔ ﴿وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ ﴾ ” اور گناہ پر ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو“ اور یہ ان گناہوں پر جسارت ہے جن کے ارتکاب سے انسان گناہگار اور ناقابل اعتبار ہوجاتا ہے ﴿وَالْعُدْوَانِ﴾ ” اور نہ زیادتی پر“ یہ مخلوق کے ساتھ ان کی جان و مال اور ان کی عزت و ناموس کے بارے میں ظلم اور زیادتی ہے۔ پس بندے پر واجب ہے کہ وہ ہر گناہ اور ظلم و تعدی سے اپنے آپ کو بھی روکے اور دوسروں کے ساتھ بھی اس ظلم و تعدی کو ترک کرنے پر تعاون کرے۔ ﴿وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴾ ” اور اللہ سے ڈرتے رہو، کچھ شک نہیں کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو سزا دے گا جو اس کی نافرمانی کرے گا اور محارم کے ارتکاب کی جسارت کرے گا۔ پس ہتک محارم سے بچو مبادا (ایسا نہ ہو) کہ تم اس کی دنیاوی یا آخروی سزا کے مستحق بن جاؤ۔