يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۗ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ
اے ایمان والو ! معاہدوں کو پورا کرو۔ تمہارے لیے وہ چوپائے حلال کردیے گئے ہیں جو مویشیوں میں داخل ( یا ان کے مشابہ) ہوں۔ (١) سوائے ان کے جن کے بارے میں تمہیں پڑھ کر سنایا جائے گا (٢) بشرطیکہ جب تم احرام کی حالت میں ہو اس وقت شکار کو حلال نہ سمجھو۔ (٣) اللہ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اس کا حکم دیتا ہے (٤)
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کو اس بات کا حکم ہے جس کا ایمان تقاضا کرتا ہے اور وہ یہ کہ معاہدوں کو پورا کیا جائے۔ ان میں کمی کی جائے نہ ان کو توڑا جائے۔ یہ آیت کریمہ ان تمام معاہدوں کو شامل ہے جو بندے اور اس کے رب کے درمیان ہیں جیسے اس کی عبودیت کا التزام، اسے پوری طرح قائم رکھنا اور اس کے حقوق میں سے کچھ کمی نہ کرنا اور یہ ان معاہدوں کو بھی شامل ہے جو بندے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین آپ کی اتباع اور اطاعت کے بارے میں ہیں اور اسی طرح اس میں وہ معاہدے بھی شامل ہیں جو بندے اور اس کے والدین اور اس کے عزیز و اقارب کے درمیان ان کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی اور عدم قطع رحمی کے بارے میں ہیں، نیز اس آیت کریمہ کے حکم میں وہ معاہدے بھی شامل ہیں جو فراخی اور تنگ دستی، آسانی اور تنگی میں صحبت اور دوستی کے حقوق کے بارے میں ہیں۔ اس کے تحت وہ معاہدے بھی آتے ہیں جو معاملات، مثلاً خرید و فروخت اور اجارہ وغیرہ کے ضمن میں بندے اور لوگوں کے درمیان ہیں۔ اس میں صدقات اور ہبہ وغیرہ کے معاہدے کی پابندی، مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی وغیرہ بھی شامل ہے جن کی پابندی کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں عائد کیا ہے۔﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ﴾ (الحجرات :49؍10) ” تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں“ بلکہ حق کے بارے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کرنا، مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور محبت سے مل جل کر رہنا اور قطع تعلقات سے اجتناب وغیرہ تک شامل ہے۔ پس اس حکم میں دین کے تمام اصول و فروغ شامل ہیں اور دین کے تمام اصول و فروع ان معاہدوں میں داخل ہیں جن کی پابندی کا اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿أُحِلَّتْ لَكُم ﴾” تمہارے لئے حلال کردیئے گئے۔‘‘ یعنی تمہاری خاطر اور تم پر رحمت کی بنا پر حلال کردیئے گئے ہیں۔ ﴿بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ ﴾ ” چوپائے مویشی“ یعنی اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری وغیرہ بلکہ بسا اوقات اس میں جنگلی جانور، مثلاً ہرن، گورخر اور اس قسم کے دیگر شکار کئے جانے والے جانور بھی شامل ہیں۔ بعض صحابہ کرام اس آیت کریمہ سے اس بچے کی حلت پر بھی استدلال کرتے ہیں جو ذبح کرتے وقت مذبوحہ کے پیٹ میں ہوتا ہے اور ذبح کرنے کے بعد وہ مذبوحہ کے پیٹ میں مر جاتا ہے۔ [حدیث میں بھی ایسے بچے کو یہ کہہ کر حلال قرار دیا گیا ہے ذَکوٰۃُ الجَنِیْنِ ذَکَاۃُ أمِّہِ (ابوداؤد، ترمذی، بحوالہ صحیح الجامع) ” بچے کا ذبح کرنا یہی ہے کہ اس کی ماں کو ذبح کرلیا جائے۔“ یعنی ماں کا ذبح کرلینا، بچے کی حلت کے لئے کافی ہے۔ (ص۔ ی)] ﴿إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ﴾ ” سوائے ان چیزوں (کی تحریم) کے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں۔“ جیسے فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ ۔۔الاٰیة﴾(المائدۃ:5؍3)” تم پر حرام کردیا گیا مردار، خون، سور کا گوشت، جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو، وہ جانور جو گلا گھٹ کر مر جائے، جو چوٹ لگ کر مر جائے، جو گر کر مر جائے، جو سینگ لگ کر مر جائے اور وہ جانور جسے درندے پھاڑ کھائیں سوائے اس کے جس کو تم ذبح کرلو اور وہ جانور جو آستانوں پر ذبح کئے جائیں۔۔۔ “ مذکورہ بالا تمام جانور اگرچہ ﴿بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ﴾ مویشیوں میں شامل ہیں تاہم یہ مردار ہونے کی وجہ سے حرام ہیں۔ یہ چوپائے مویشی عام طور پر تمام احوال و اوقات میں مباح ہیں البتہ احرام کی حالت میں ان کے شکار کو مستثنی ٰقرار دیا گیا ہے، اس لئے فرمایا : ﴿غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ﴾” مگر حلال نہ جانو شکار کو احرام کی حالت میں“ یعنی یہ جانور تمہارے لئے تمام احوال میں حلال ہیں سوائے اس حالت میں جبکہ تم احرام کی حالت میں ہو تب اس حالت میں شکار نہ کرو، یعنی احرام میں ان کو مارنے کی جرأت نہ کرو، کیونکہ حالت احرام میں ان کا شکار کرنا مثلاً ہرن وغیرہ کو مارنا تمہارے لئے جائز نہیں۔ شکار سے مراد وہ جنگلی جانور ہے جس کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ ﴾ ” بے شک اللہ جو چاہے، فیصلہ کرتا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ جو بھی ارادہ کرتا ہے اس امر کے مطابق فیصلہ کرتا ہے جو اس کی حکمت کے عین مطابق ہوتا ہے۔ جس طرح اس نے تمہارے مصالح کے حصول اور مضرت کو دور کرنے کے لئے تمہیں معاہدوں کو پورا کرنے کا حکم دیا اور تم پر رحمت کی بنا پر اس نے تمہارے لئے مویشیوں کو حلال قرار دیا اور بعض موانع کی وجہ سے جو جانوران میں سے مستثنیٰ ہیں ان کو حرام قرار دیا مثلاً مردار وغیرہ اس کا مقصد تمہاری حفاظت اور احترام ہے۔ احرام کی حالت میں شکار کو حرام قرار دیا اور اس کا مقصد احرام کا احترام اور تعظیم ہے۔