يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَآمِنُوا خَيْرًا لَّكُمْ ۚ وَإِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
اے افراد نسل انسانی ! بلاشبہ الرسول (یعنی پیغمبر اسلام) تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس سچائی کے ساتھ آگیا ہے (اور اس کی سچائی اب کسی کے جھٹلائے جھٹلائی نہیں جاسکتی) پس ایان لاؤ کہ تمہارے لیے (اسی میں بہتری ہے اور (دیکھو) اگر تم کفر کرو گے تو آسمان و زمین میں جو کچھ ہے، سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ (تمہاری شقاوت خود تمہارے ہی آگے آئے گی اور (یاد رکھو) اللہ (سب کچھ) جاننے والا، اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے
اللہ تبارک و تعالیٰ تمام لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس کے بندے اور رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں۔ اس نے اس سبب کا بھی ذکر فرمایا ہے جو ایمان کا موجب ہے اور ایمان کے اندر جو فوائد اور عدم ایمان کے اندر جو نقصانات ہیں ان سب کا ذکر کیا ہے۔ پس ایمان کا موجب، سبب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دینا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حق کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں۔ آپ کی تشریف آوری فی نفسہ حق اور جو شریعت آپ لائے ہیں وہ بھی حق ہے۔ عقلمند شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ مخلوق کا اپنی جہالت میں سرگرداں رہنا اور اپنے کفر میں ادھر ادھر مارے مارے پھرنا جبکہ رسالت منقطع ہوچکی ہو۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی رحمت کے لائق نہیں۔ پس یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت اور بے پایاں رحمت ہے کہ اس نے ان کی طرف رسول کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ ان کو گمراہی اور ضلالت میں سے رشد و ہدایت کی پہچان کروائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں مجرد غور و فکر ہی آپ کی نبوت کی صداقت کی قطعی دلیل ہے۔ اسی طرح اس عظیم شریعت اور صراط مستقیم میں غور و فکر، جس کے ساتھ آپ تشریف لائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے کیونکہ اس میں گزشتہ زمانوں اور آئندہ آنے والے زمانوں کے امور غیبیہ، نیز اللہ تعالیٰ اور روز آخرت کے بارے میں ایسی ایسی خبریں دی گئی ہیں کہ کوئی شخص وحی اور رسالت کے بغیر ان کی معرفت حاصل نہیں کرسکتا اور اس میں ہر قسم کی خیر و صلاح، رشد و ہدایت، عدل و احسان، صدق، نیکی، صلہ رحمی اور حسن اخلاق کا حکم دیا گیا ہے اور ہر قسم کے شر، فساد، بغاوت، ظلم، بدخلقی، جھوٹ اور والدین کی نافرمانی سے روکا گیا ہے جن کے بارے میں قطعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ بندے کی بصیرت میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے اس کے ایمان و ایقان میں اضافہ ہوتا ہے۔ پس یہ ہے وہ سبب جو بندے کو ایمان کی دعوت دیتا ہے۔ رہی ایمان میں فائدے کی بات تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ﴿خَيْرًا لَّكُمْ ۚ ﴾ ” تمہارے لئے بہتر ہے۔“ خیر، شر کی ضد ہے۔ پس ایمان اہل ایمان کے ابدان، ان کے دلوں، ان کی ارواح اور ان کی دنیا و آخرت میں ان کے لئے بہتر ہے۔ کیونکہ ایمان پر مصالح اور فوائد مترتب ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہر قسم کا ثواب، خواہ وہ اسی دنیا میں حاصل ہو یا آخرت میں، ایمان ہی کا ثمرہ ہے اور فتح و نصرت، ہدایت، علم، عمل صالح، مسرتیں، فرحتیں، جنت اور جنت کی تمام نعمتیں، ان سب کا سبب ایمان ہے۔ جیسے دنیاوی اور آخروی بدبختی عدم ایمان یا نقص کے باعث ہے۔ رہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عدم ایمان کا ضرر تو اسے ان فوائد کی ضد سے معلوم کیا جاسکتا ہے جو ایمان کے باعث حاصل ہوتے ہیں اور بندہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے۔ تمام گناہ گاروں کا گناہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَإِنَّ لِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ ” اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے۔“ یعنی زمین و آسمان میں ہر چیز اس کی مخلوق، اس کی ملکیت اور اس کی تدبیر اور تصرف کے تحت ہے﴿وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيمًا ﴾ ” اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔“ ﴿حَكِيمًا ﴾ ” حکمت والا ہے۔“ وہ اپنے خلق و امر میں حکمت کا مالک ہے۔ پس وہ جانتا ہے کہ کون ہدایت اور کون گمراہی کا مستحق ہے۔ ہدایت اور گمراہی کو ان کے اپنے اپنے مقام پر رکھنے میں وہ حکمت سے کام لیتا ہے۔