بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا
بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا، اور اللہ سب پر غالب رہنے والا اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے
﴿وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ﴾’ اور کوئی اہل کتاب نہیں ہوگا مگر ان کی موت سے پہلے ان پر ایمان لے آئے گا۔“ (قَبْلَ مَوْتِهِ) میں اس بات کا احتمال ہے کہ ضمیر کا مرجع اہل کتاب ہو۔ تب اس احتمال کی صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اہل کتاب کا ہر شخص اپنی موت کے وقت اس امر کی حقیقت کا معائنہ کرلے لگا۔ پس وہ اس وقت جناب عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے گا مگر یہ وہ ایمان ہے جو کوئی فائدہ نہیں دیتا کیونکہ یہ اضطراری ایمان ہے۔ پس یہ مضمون ان کے لئے تہدید و وعید کی حیثیت رکھتا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے اس حال پر قائم نہ رہیں جس پر انہیں موت سے قبل نادم ہونا پڑتا ہے۔ جب وہ یہاں نادم ہوتے ہیں تو حشر کے روز جب وہ اللہ کے حضور کھڑے ہوں گے ان کا کیا حال ہوگا؟ اور آیت میں اس بات کا احتمال بھی ہے کہ (قَبْلَ مَوْتِهِ) میں ضمیر کا مرجع جناب عیسیٰ علیہ السلام ہوں۔ تب معنی یہ ہوں گے کہ اہل کتاب کا ہر شخص جناب مسیح علیہ السلام کی موت سے قبل ان پر ایمان لے آئے گا۔ جناب مسیح علیہ السلام قیامت کے قریب ظاہر ہوں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد ظہور قیامت کی بڑی بڑی نشانیوں میں شمار ہوتی ہے۔ بکثرت احادیث میں وارد ہے کہ اس امت کے آخری زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا، وہ دجال کو قتل کریں گے، جزیہ ساقط کردیں گے اور اہل ایمان کے ساتھ اہل کتاب بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئیں گے۔ قیامت کے روز حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے اعمال پر گواہی دیں گے کہ آیا یہ اعمال شریعت کے مطابق تھے یا نہیں؟ اس روز وہ ان کے ہر اس عمل کے بطلان کی گواہی دیں گے جوشریعت قرآن کے مخالف ہوگا۔ چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب کو اس کی طرف دعوت دی ہے اس لئے ہمیں اس بات کا علم ہے اور اس وجہ سے بھی کہ ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کامل طور پر عادل اور صاحب صدق ہونے کا علم ہے اور ہمیں یہ بھی علم ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف حق کی گواہی دیں گے اور اس بات کی گواہی دیں گے کہ جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو لے کر آئے، وہ حق ہے، اس کے علاوہ جو کچھ ہے، باطل اور گمراہی ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ اس نے اہل کتاب پر بہت سی پاک چیزیں حرام ٹھہرا دی تھیں جو ان پر حلال تھیں۔ یہ تحریم ان کے ظلم و تعدی، اللہ تعالیٰ کے راستے سے لوگوں کو روکنا، لوگوں کو ہدایت کی راہ سے باز رکھنے اور منع کرنے کے باوجود ان کے سود کھانے کی وجہ سے سزا کے طور پر نافذ کی گئی تھی۔ وہ محتاج لوگوں کو اپنی خرید و فروخت میں سود کے ذریعے سے انصاف کی راہ سے ہٹاتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے خود ان کے فعل کی جنس ہی سے ان کو سزا دی اور بہت سی طیبات کو ان پر حرام کردیا، جن کو حلال کرنے کے وہ خواہش مند تھے، کیونکہ فی نفسہٖ وہ حلال تھیں۔ رہی اس امت پر بعض چیزوں کیت حریم، تو یہ تحریم ان کو ان خبائث سے بچانے کی خاطر ہے جو ان کے دین و دنیا میں نقصان دہ ہیں۔