يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۚ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا
مسلمانو ! ایسا نہ کرو کہ مسلمانوں کے سوا کافروں کو (جو تمہارے خلاف لڑ رہے ہیں اور تمہاری بربادی پر تلے ہوئے ہیں) اپنا رفیق و مددگار بناؤ۔ کیا تم چاہتے ہو خدا کا صریح الزام اپنے اوپر لے لو۔
چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے منافقین کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ اہل ایمان کو چھوڑ کر کفار کو دوست بناتے ہیں، اس لئے اس نے اپنے مومن بندوں کو اس قبیح حالت سے متصف ہونے سے روکا ہے نیز انہیں منافقین کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا ہے۔ کیونکہ تمہارا یہ عمل اللہ تعالیٰ کو حجت فراہم کرے گا۔ فرمایا : ﴿أَن تَجْعَلُوا لِلَّـهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا﴾ ’’یہ کہ تم اپنے اوپر اللہ کا صریح الزام لو۔“ یعنی تمہیں عذاب دینے کے لئے یہ واضح دلیل ہوگی۔ کیونکہ ہم تمہیں اس رویئے سے ڈرا چکے ہیں اور تمہیں اس سے بچنے کی تلقین کرچکے ہیں اور اس میں جو مفاسد پنہاں ہیں ان سے آگاہ کرچکے ہیں۔ اس کے بعد بھی اسی راہ پر چلنا عذاب کا موجب ہوگا۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے کامل عدل پر دلالت کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس قانون پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ حجت قائم کرنے سے پہلے کسی کو سزا نہیں دے گا اور اس میں گناہوں سے بچنے کی تلقین ہے کیونکہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والا اپنے خلاف اللہ تعالیٰ کو واضح دلیل فراہم کرتا ہے۔