سورة النسآء - آیت 130

وَإِن يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّهُ كُلًّا مِّن سَعَتِهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ وَاسِعًا حَكِيمًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اگر (میاں بی بی میں اصلاح کی کوئی صورت بن نہ پڑے اور ایک دوسرے سے) جدا ہوجائیں، تو اللہ اپنے (فضل کی) کشائش سے دونوں کو بے نیاز کردے گا (یعنی ان میں سے ہر ایک کے لیے کوئی دوسرا انتظام پیدا ہوجائے گا جو عجب نہیں، پہلے کی) کشائش سے دونوں کو بے نیاز کردے گا (یعنی ان میں سے ہر ایک کے لیے کوئی دوسرا انتظام پیدا ہوجاجائے گا جو عجب نہیں، پہلے سے بہتر ہو) اور اللہ بڑی وسعت والا اور اپنے تمام احکام میں) حکمت رکھنے والا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

میاں بیوی کے درمیان تیسری حالت یہ ہے کہ جب اتفاق کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو دونوں کے درمیان علیحدگی میں کوئی حرج نہیں۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِن يَتَفَرَّقَا﴾ ” اور اگر وہ ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں۔“ یعنی اگر دونوں طلاق، فسخ یا خلع کے ذریعے سے ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجائیں ﴿يُغْنِ اللّٰهُ كُلًّا مِّن سَعَتِهِ﴾ ” اللہ تعالیٰ دونوں میاں بیوی کو اپنے فضل و کرم اور لامحدود احسان کے ذریعے سے ایک دوسرے سے بے نیاز کر دے گا“ شوہر کو کسی دوسری بیوی کے ذریعے سے پہلی بیوی اور بیوی کو اپنے فضل و کرم سے مستغنی کر دے گا۔ اگر بیوی کا اپنے شوہر کے رزق میں سے حصہ ختم ہوگیا ہے تو اس کا رزق اس ہستی کے ذمے ہے جو تمام مخلوق کو رزق عطا کرتی ہے اور ان کے مصالح کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ شاید اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر شوہر عطا کر دے۔ ﴿وَكَانَ اللّٰهُ وَاسِعًا﴾ ” اور اللہ بڑی کشائش والا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ بہت زیادہ فضل و کرم اور بے پایاں رحمت کا مالک ہے۔ جہاں جہاں اس کے علم نے احاطہ کیا ہوا ہے، وہاں تک اس کی رحمت سا یہ کناں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ﴿حَكِيمًا﴾” وہ حکمت والا ہے“ اگر کسی کو عطا کرتا ہے تو حکمت کی بنیاد پر اور محروم کرتا ہے تو حکمت ہی کی بنیاد پر جب اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ کسی بندے کو کسی سبب کی بنا پر اپنے فضل و احسان سے محروم کرے جس کا وہ مستحق نہیں، تو اپنے عدل و حکمت سے اسے محروم کردیتا ہے۔