وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ۚ وَإِن تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
اور تم اپنی طرف سے کتنے ہی خواہش مند ہو، لیکن یہ بات تمہاری طاقت سے باہر ہے کہ (ایک سے زیادہ) عورتوں میں (کامل طور پر) عدل کرسکو (کیونکہ دل کا قدرتی کھنچاؤ تمہارے بس کا نہیں۔ کسی طرف زیادہ کھنچے گا کسی طرف کم) پس ایسا نہ کرو کہ کسی ایک ہی کی طرف جھک پڑو، اور دوسری کو (اس طرح) چھور بیٹھو گویا "معلقہ" ہے (یعنی ایسی عورت ہے کہ نہ تو بیوہ اور طلاق دی ہوئی ہے کہ اپنا دوسرا انتظام کرے۔ نہ شوہر ہی اس کا حق ادا کرتا ہے کہ شوہر والی عورت کی طرح ہو۔ بیچ میں پڑی لٹک رہی ہے) اور (دیکھو) اگر تم (عورتوں کے معاملہ میں) درستی پر رہو، اور (بے انصافی سے) بچو، تو اللہ بخشنے والا، رحمت رکھنے والا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ شوہر اپنی بیویوں کے درمیان انصاف نہیں کرسکتے اور پورا پورا عدل و انصاف کرنا ان کے بس میں بھی نہیں کیونکہ عدل اس بات کو مستلزم ہے کہ تمام بیویوں کے ساتھ یکساں محبت ہو، محبت کا داعیہ سب کے لئے برابر ہو اور دل کا میلان ان کے لئے مساوی ہو۔ پھر اس کے تقاضے کے مطابق عمل ہو۔ چونکہ یہ ناقابل عمل اور ناممکن ہے اس لئے جو چیز انسان کے بس میں نہیں اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا ہے اور اس چیز سے منع کردیا جو انسان کے بس میں ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ﴾ ” ایک ہی کی طرف مائل نہ ہوجانا کہ دوسروں کو ایسی حالت میں چھوڑ دو کہ گویا وہ لٹک رہی ہے۔“ یعنی تم ایک طرف بہت زیادہ نہ جھک جاؤ کہ تم ان کے وہ حقوق بھی ادا نہ کرسکو جو واجب ہیں، بلکہ اپنی استطاعت بھر عدل و انصاف سے کام لو۔ پس نان و نفقہ، لباس اور شب باشی کی تقسیم وغیرہ ایسے امور ہیں جن میں عدل کرنا تم پر فرض ہے، اس کے برعکس محبت اور مجامعت وغیرہ میں عدل و انصاف ممکن نہیں۔ پس جب شوہر بیوی کے وہ حقوق ترک کردیتا ہے جنہیں ادا کرنا واجب ہے تو بیوی اس معلق عورت کی مانند ہوجاتی ہے جس کا خاوند نہیں ہوتا کہ جس سے وہ راحت حاصل کرے اور حقوق زوجیت ادا کرنے کی تیاری کرے اور نہ وہ خاوند والی ہوتی ہے جو اس کے حقوق کی دیکھ بھال کرے۔ ﴿وَإِن تُصْلِحُوا ﴾ ” اور اگر آپس میں موافقت کرلو۔“ یعنی اگر تم اپنے اور اپنی بیویوں کے درمیان معاملات کی اصلاح کرلو، یعنی بیوی کے حقوق ادا کرتے ہوئے احتساب کے ساتھ اپنے نفس کو اس فعل پر مجبور کرو جس کو بجا لانے پر وہ آمادہ نہیں اور ان معاملات کی بھی اصلاح کرلو جو تمہارے اور لوگوں کے درمیان ہیں اور لوگوں کے تنازعات میں ان کے مابین صلح کرواؤ۔ یہ چیز اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ صلح کے لئے علی الاطلاق ہر طریقہ بروئے کار لایا جائے۔ ﴿ وَتَتَّقُوا ﴾” اور پریز گاری کرو۔“ مامورات پر عمل اور محظورات کو ترک کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مقدور بھر صبر کرو۔ ﴿ فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾ ” اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ تو اللہ تمہارے تمام گناہوں کو معاف کر دے گا جو تم سے صادر ہوتے ہیں اور ان کوتاہیوں کو نظر انداز کر دے گا اور جیسے تم اپنی بیویوں کے ساتھ شفقت و مودت کا رویہ رکھتے ہو اللہ تعالیٰ بھی تم پر رحم کرے گا۔