وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۗ وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا
اور پھر (بتلاؤ) اس آدمی سے بہتر دین رکھنے والا کون ہوسکتا ہے جس نے اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دیا اور وہ نیک عمل بھی ہے، اور اس نے ابراہیم کے طریقے کی پیروی کی ہے جو (تمام انسانی گروہ بندیوں سے الگ ہو کر) صرف خدا ہی کے لیے ہورہا تھا اور (یہ واقعہ ہے کہ) اللہ نے ابراہیم کو اپنا دوست مخلص بنا لیا تھا
یعنی اس شخص کے دین سے بہتر کسی کا دین نہیں جس نے اخلاص اور اللہ کی طرف تمام اعضاء کی توجہ کو جمع کرلیا ہے۔ یہاں اخلاص سے مراد ہے چہرے کا اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جانا جو قلب کے خشوع، اس کی توجہ، اس کی انابت اور اس کے اخلاص پر دلالت کرتا ہے۔ اس اخلاص اور فرمانبرداری کے ساتھ ساتھ﴿وَهُوَ مُحْسِنٌ﴾” اور وہ نیکوکار بھی ہے“ وہ اس شریعت کا متبع ہو جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو مبعوث فرمایا، اپنی کتابیں نازل کیں اور اسے اپنے خاص بندوں اور ان کے متبعین کے لئے لائحہ عمل قرار دیا۔﴿وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ ﴾ ” اور ابراہیم کے دین کا پیرو ہے۔“ یعنی اس نے حضرت ابراہیم کے دین اور شریعت کی اتباع کی﴿حَنِيفًا﴾ ” یکسو ہو کر“ یعنی شرک کو چھوڑ کر توحید کو اپنایا، مخلوق سے توجہ ہٹا کر خالق کی طرف توجہ کی ﴿وَاتَّخَذَ اللّٰهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا﴾ ” اور اللہ نے ابراہیم کو خلیل بنایا“ (خُلَّةٌ) محبت کی بلند ترین نوع ہے اور محبت کا یہ اعلیٰ ترین مرتبہ اللہ تعالیٰ کے دو خلیلوں کو حاصل ہوا ہے، یعنی جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور جناب ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو اور رہی اللہ تعالیٰ کی محبت عامہ تو یہ عام اہل ایمان کے لئے ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اس لئے بنایا کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کو پورا کیا اور ہر آزمائش میں پورے اترے۔ پس اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام لوگوں کا امام ٹھہرایا اور اپنا خلیل بنا لیا اور تمام جہانوں میں ان کے ذکر کو بلند کیا۔