سورة النسآء - آیت 117

إِن يَدْعُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا إِنَاثًا وَإِن يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَانًا مَّرِيدًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(یہ مشرک خدا کے ساتھ کن کو شریک ٹھہراتے ہیں؟ اور کن کو پکارتے ہیں) یہ نہیں پکارتے، مگر۔۔۔۔ کو، اور یہ نہیں کارتے ہیں مگر شیطان مردود کو جس پر اللہ لعنت کرچکا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یعنی یہ مشرکین اللہ تعالیٰ کے سوا جن ہستیوں کو پکارتے ہیں سب مؤنث ہیں یعنی لوگ جن بتوں کو پوجتے ہیں وہ عورتوں جیسے ناموں سے موسوم ہیں، مثلاً ” عزّٰی“ اور ” مناۃ“ وغیرہ۔ یہ بھی ہمیں معلوم ہے کہ اسم اپنے مسمی پر دلالت کرتا ہے اور جب ان بتوں کے نام مؤنث اور ناقص ہیں تو یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ ان اسماء کے مسمیات بھی ناقص اور صفات کمال سے محروم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر فرمایا ہے کہ یہ بت کوئی چیز تخلیق کرسکتے ہیں نہ رزق عطا کرسکتے ہیں نہ وہ اپنے عبادت گزاروں کی کسی تکلیف کو دور کرسکتے ہیں بلکہ وہ تو اپنی ذات تک کے نفع و نقصان کے مالک نہیں اور اگر کوئی ان کو نقصان پہنچانا چاہے تو یہ اپنی مدد کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ ان میں سماعت ہے نہ بصارت اور نہ سوچنے سمجھنے کی قوت۔ جس کے یہ اوصاف ہوں وہ کیسے عبادت کا مستحق ہوسکتا ہے اور اس ہستی کے لئے اخلاص کو کیسے ترک کیا جاسکتا ہے جو اسمائے حسنیٰ، صفات علیا، حمد و کمال، مجد و جلال، غلبہ و جمال، رحمت و احسان، تخلیق و تدبیر میں منفرد اور امرو تقدیر میں عظیم حکمت کی مالک ہے۔ کیا یہ بدترین قباحت نہیں ہے جو ان ہستیوں کے نقص پر دلالت کرتی ہے اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کی پرستش خساست و دناءت کے اس انتہائی نچلے درجے پر پہنچی ہوئی ہے جس کا کوئی تصور کرسکتا ہے نہ کوئی بیان کرنے والا بیان کرسکتا ہے؟ بایں ہمہ یہ لوگ جو ان ناقص بتوں کی عبادت کرتے ہیں محض ان کی شکل و صورت کی عبادت کرتے ہیں ورنہ درحقیقت وہ شیطان کی عبادت کرتے ہیں جو ان کا دشمن ہے اور وہ ان کو ہلاک کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لئے وہ بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے بہت دور ہے اللہ تعالیٰ نے اسے ملعون قرار دے کر اپنی رحمت سے بہت دور کردیا ہے۔ پس جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے دور کردیا ہے اسی طرح وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اس کی رحمت سے دور کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ﴾ (فاطر :35؍6) ” وہ تو اپنے پیرو کاروں کے گروہ کو محض اس لئے بلاتا ہے تاکہ وہ جہنم والے بن جائیں۔ “ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو گمراہ کرنے، شر اور فساد کو ان کے لئے مزین کرنے کی شیطانی کوششوں کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے فرمایا کہ شیطان نے قسم کھا کر اپنے رب سے کہا :