وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ أَن يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ ۖ وَمَا يَضُرُّونَكَ مِن شَيْءٍ ۚ وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا
اور (اے پیغمبر) اگر تم پر اللہ کا فضل نہ ہوتا، اور اس کی رحمت (کار فرما) نہ ہوتی تو واقعہ یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے ایک جماعت نے تو پورا ارادہ کرلیا تھا، کہ (اصل مجرم کی حمایت میں جتھا بندی کر کے) تمہیں غلط راستہ پر ڈال دیں (اور تم بے گناہ آدمی کو مجرم سمجھ لو) یہ لوگ غلط راستہ پر نہیں ڈال رہے ہیں، مگر خود اپنی ہی جانوں کو (کہ حق کی حمایت کرنے کی جگہ جھوٹے کی حمایت کررہے ہیں) یہ (اپنی چالاکیوں سے) تمہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے، کیونکہ اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کردی ہے، اور جو باتیں معلوم نہ تھیں وہ تمہیں سکھلا دی ہیں، اور تم پر اس کا بہت ہی بڑا فضل ہے
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول پر اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے آپ کو ان لوگوں کے ارادوں سے محفوظ رکھا جو آپ کو گمراہ کرنا چاہتے تھے۔ ﴿وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ أَن يُضِلُّوكَ﴾ ” اگر اللہ کا فضل و رحم آپ پر نہ ہوتا تو ان کی ایک جماعت نے آپ کو بہکانے کا قصد کر ہی لیا تھا“ ان آیات کریمہ کے بارے میں اصحاب تفسیر ذکر کرتے ہیں کہ ان کا سبب نزول یہ ہے کہ ایک گھرانے نے مدینہ میں چوری اکا ارتکاب کیا۔ جب چوری کی اطلاع لوگوں کو ہوئی تو انہوں نے فضیحت اور رسوائی سے ڈرتے ہوئے چوری کا سامان کسی بے گناہ شخص کے گھر پھینک دیا۔ پھر چور نے اپنے قبیلہ کے لوگوں سے مدد طلب کی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر لوگوں کے سامنے اسے بری کروائیں۔ اس کے قبیلہ والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ ان کے آدمی نے چوری نہیں کی۔ چوری تو اس شخص نے کی ہے جس کے گھر سے مسروقہ سامان برآمد ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے آدمی کو بری قرار دینے کا ارادہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے حقیقت حال بیان کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیانت کا روں کی حمایت کرنے سے بچانے کے لیے یہ آیات نازل فرمائیں کیونکہ باطل پسندوں کی حمایت کرنا گمراہی ہے۔ گمراہی کی دو اقسام ہیں۔ (١) علم میں گمراہی، یہ حق سے لاعلمی اور جہالت کا نام ہے۔ (٢) عمل میں گمراہی، عمل واجب کے خلاف عمل کرنا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نوع کی گمراہی سے اسی طرح محفوظ رکھا جس طرح اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمل کی گمراہی سے محفوظ و مصئون رکھا ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ ان کا مکر و فریب انہی کی طرف لوٹے گا جیسا کہ ہر فریبی کے ساتھ ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ﴾ ” وہ اپنے آپ کو ہی گمراہ کرتے ہیں“ کیونکہ اس فریب اور حیلہ سازی سے انہیں اپنا مقصد حاصل نہ ہوسکا اور انہیں سوائے ناکامی، محرومی، گناہ اور خسارے کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت بڑی نعمت ہے جو نعمت عمل کو متضمن ہے اور یہ اس فعل کی توفیق ہے جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے اور ہر قسم کے محرمات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی نعمت علم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَأَنزَلَ اللّٰهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ﴾ ”اور اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت نازل فرمائی ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن عظیم اور ذکر حکیم نازل فرمایا جس میں ہر چیز کا بیان اور اولین و آخرین کا علم ہے۔ حکمت سے مراد یا تو سنت ہے جس کے بارے میں سلف میں سے کسی کا قول ہے کہ سنت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعے سے نازل ہوتی ہے جیسے قرآن نازل ہوتا ہے یا اس سے مراد اسرار شریعت کی معرفت ہے جو احکام شریعت کی معرفت سے زائد چیز ہے، نیز اس سے مراد تمام اشیاء کو ان کے اپنے اپنے مقام پر رکھنا اور ہر شے کو اس کے مطابق ترتیب دینا ہے۔ فرمایا : ﴿وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ﴾ ” اور آپ کو وہ (کچھ) سکھایا جو آپ نہیں جانتے تھے“ یہ ان تمام امور کو شامل ہے جن کا علم اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔ ورنہ نبوت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو احوال تھے ان کا وصف بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ ﴾ (الشوری :42؍52) ” آپ نہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے؟“ اور فرمایا : ﴿وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ﴾ (الضحی :93؍7) ” اور اس نے آپ کو رستے سے ناواقف پایا تو سیدھا راستہ دکھایا۔“ پھر اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی بھیجتا رہا، آپ کو علم سکھاتا رہا اور آپ کے علم کی تکمیل کرتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم علم کے ایسے مقام پر فائز ہوگئے کہ اولین و آخرین وہاں تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی الطلاق مخلوق میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے، صفات کمال کے سب سے زیادہ جامع اور ان صفات میں سب سے زیادہ کامل تھے بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَكَانَ فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا﴾ ”اللہ کا آپ پر بڑا بھاری فضل ہے“ اللہ تعالیٰ کا فضل مخلوق میں سب سے زیادہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم کی ہرجنس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نوازا ہے جن کی تہہ تک پہنچنانا ممکن اور ان کو شمار کرنا آسان نہیں۔