سورة النسآء - آیت 112

وَمَن يَكْسِبْ خَطِيئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهِ بَرِيئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جس کسی سے (بے جانے بوجھے) کوئی خطا سرزد ہوجائے۔ یا (جان بوجھ کر) کسی گناہ کا مرتکب ہو اور پھر (اپنے بچاؤ کے لیے) اسے کسی بے گناہ کے سر تھوپ دے تو (یاد رکھو) اس نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (بھی) اپنی گردن پر لاد لیا

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَن يَكْسِبْ خَطِيئَةً﴾ ” جو شخص کبیرہ یا صغیرہ گناہ تو خود کرے“ ﴿ثُمَّ يَرْمِ بِهِ﴾ ’’پھر اس سے کسی (بے گناہ) کو متہم کرے۔“ یعنی اپنے گناہ کو کسی اور کے سر تھوپ دے ﴿بَرِيئًا ﴾ ” جو اس گناہ سے بری ہے۔“ خواہ اس نے کسی اور گناہ کا ارتکاب کیوں نہ کیا ہو ﴿فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا﴾ ” تو اس نے بہت بڑا بہتان باندھا اور کھلا گناہ کیا“ یعنی اس نے بے گناہ پر لگائے گئے بہتان کے گناہ کا بوجھ بھی اٹھا لیا اور اس ظاہری گناہ کا بوجھ بھی جس کا اس نے ارتکاب کیا۔ یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ بہتان ہلاک کرنے والے کبائر میں شمار ہوتا ہے، کیونکہ اس میں متعدد مفاسد جمع ہیں : (١) گناہ کبیرہ کا ارتکاب (٢) پھر اس گناہ کا بہتان اس شخص پر لگا دینا جو بے گناہ ہے۔ (٣) پھر اپنے آپ کو بے گناہ اور بے گناہ کو گناہ گار ثابت کرنے کے لیے جھوٹ بولنا (٤) پھر اس گناہ پر جو دنیاوی عقوبت مترتب ہوتی ہے وہ عقوبت ایک بے گناہ پر نافذ کرا دینا اور خود کو سزا سے بچا لینا حالانکہ وہ حقیقی مجرم ہے۔ (٥) پھر بے گناہ شخص کے بارے میں لوگوں کی باتیں اور دیگر مفاسد۔ ان تمام مفاسد اور ہر ایک شر سے ہم اللہ تعالیٰ کی عافیت کا سوال کرتے ہیں۔