وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ ۖ إِن تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ۖ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ مَا لَا يَرْجُونَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
اور (دیکھو) دشمنوں کا پیچھا کرنے میں ہمت نہ ہارو۔ اگر تمہیں (جنگ میں) دکھ پہنچتا ہے، تو جس طرح تم دکھی ہوتے ہو، وہ بھی (تمہارے ہاتھوں) دکھی ہوتے ہیں، اور (تمہیں ان پر یہ فوقیت ہے کہ) اللہ سے (کامیابی اور اجر کی) ایسی ایسی امیدیوں رکھتے ہو، جو انہیں میسر نہیں۔ (کیونکہ تم اللہ کی راہ میں حق و انصاف کے لیے لڑ رہے ہو۔ وہ اپنی نفسانی خواہشوں کے لیے ظلم و فساد کی راہ میں لڑ رہے ہیں) اور (یاد رکھو) الہ (تمام حال) جاننے والا، اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے
یعنی اپنے دشمن کفار کو طلب کرنے ان کے خلاف جہاد اور ان کے مقابلے میں تیار رہنے میں کمزوری اور سستی کا مظاہرہ نہ کرو، کیونکہ دل کی کمزوری بدن کی کمزوری کو دعوت دیتی ہے اور یہ کمزوری دشمن کے مقابلے میں کمزوری کا باعث بنتی ہے بلکہ دشمن کے خلاف جنگ میں چست و چالاک اور طاقتور بنو، پھر اللہ تعالیٰ نے ان امور کا ذکر فرمایا ہے جو اہل ایمان کے دل کو قوت بخشتے ہیں اور وہ دو چیزیں ہیں۔ اول : جس درد و الم، مشقت، تھکاوٹ اور زخموں وغیرہ کا تمہیں سامنا کرنا پڑتا ہے انہی چیزوں کا سامنا تمہارے دشمن کو بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے انسانی مروت اور اسلامی شجاعت و شہامت کے شایاں نہیں کہ تم ان کے مقابلے میں زیادہ کمزوری کا مظاہرہ کرو جبکہ تمہیں اور ان کو برابر کی تکالیف کا سامنا ہے۔ عادت جاریہ یہ ہے کہ صرف وہی شخص کمزور ہوتا ہے جو نہایت تسلسل کے ساتھ رنج و آلام کا شکار رہا ہو اور دشمن دائمی طور پر اس پر غالب ہو نہ کہ وہ شخص جو کبھی غالب رہا ہو اور کبھی مغلوب۔ ثانی: اللہ تعالیٰ پر جو امید تم رکھتے ہو وہ امید کفار نہیں رکھتے۔ تم اللہ تعالیٰ کے ثواب کے حصول اور اس کے عذاب سے نجات کی امید رکھتے ہو بلکہ خواص اہل ایمان تو اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت، اس کی شریعت کے نفاذ، گمراہوں کی راہ نمائی اور دین کے دشمنوں کے قلع قمع جیسے بلند مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ پس یہ تمام امور صاحب تصدیق مومن کی قوت میں اضافے کا سبب بنتے ہیں، ان سے ان کی چستی اور بہادری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ جو دنیاوی عزت و جاہ کے حصول کی خاطر جنگ کرتا ہے اور اس میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ اس شخص کی مانند تو نہیں ہوسکتا جو دنیاوی اور آخروی سعادت، اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کے حصول کی خاطر لڑتا ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندوں کے درمیان تفاوت رکھا ہے اور اپنے علم اور حکمت کے ذریعے سے ان کے مابین تفریق کی ہے۔ بنابریں فرمایا : ﴿وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴾” اور اللہ سب کچھ جانتا، بڑی حکمت والا ہے۔“ یعنی وہ علم کامل اور حکمت کامل کا مالک ہے۔